Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینی کے بحران میں حکومت کا کیا کردار رہا؟

رپورٹ کے مطابق اسد عمر صوبوں کو سبسڈی دینے کے اختیار دینے کے حوالے سے مطمئن نہیں کر سکے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
شوگر انکوائری کمیشن نےحکومت، اپوزیشن اورشوگر مل مالکان میں سے بیشتر کو قصوروارٹھہرایا ہے۔
شوگر تحقیقاتی رپورٹ میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی، شوگر ایڈوائزی بورڈ اور کابینہ کے فیصلوں پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ جہانگیرترین کی شوگرمل جے ڈی ڈبلیو نے 56 کروڑروپے سبسڈی حاصل کی۔

 

خسروبختیار کے قریبی عزیزمخدوم عمرشہریارکی آر وائے کے نے 45 کروڑ کی سبسڈی حاصل کی جبکہ چودھری مونس الہٰی بھی  مخدوم عمرشہریار کے پارٹنر ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے چینی ایکسپورٹ پر اس وقت سبسڈی دی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ۔ جب سبسڈی واپس لی گئی تو7لاکھ 62 ہزارٹن میں سے 4لاکھ 74 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ ہوچکی تھی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی کو بھی بلا جواز قرار دیا گیا ہے۔

جہانگیر ترین کی شوگر ملز کی بے نامی ٹرانزیکشنز

شوگر تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز جی ڈی ڈبلیو گروپ نے 71 فیصد سیلز میں بے نامی ٹرانزیکشن ظاہر کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 سے 2020 سیلز ٹکس ریٹنز کے ریکارڈ میں  71 فیصد بے نامی ٹرانزیکشن کی سامنی آئی ہیں۔
رپورٹ میں گڈز ٹرانسپورٹ کے ٹرک ڈرائیورز کے نام پر بے نامی ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جے ڈی ڈبلیو گروپ نے جان بوجھ کر اصل خریداروں کے نام چھپائے تاکہ ان کو ٹیکس نیٹ میں نہ لایا جاسکے۔

 رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ بے نامی ٹرانزیکشن کے بینیفشل اونرز کے بارے معلومات کے لیے جامع کارروائی کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سیلز ٹیکس کے لیے ایف بی آر کی جانب سے جب شناختی کارڈ کی شرط عائد کی گئی تو ٹرک ڈرائیورز اور غیر متعلقہ افراد کے کوائف جمع کرائے گئے۔
 رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ بے نامی ٹرانزیکشن کے بینیفشل اونرز کے بارے معلومات کے لیے جامع کارروائی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 32 لاکھ سے زائد چینی کے بیگز جو کہ کمپنی کے ریکارڈ میں فروخت ہو چکے ہیں ابھی تک مبینہ خریداروں کی جانب سے اٹھائے نہیں گئے۔ جن میں اکثریت ایف بی آر کے سیلز ریکارڈ میں رپورٹ ہو چکے ہیں لیکن بے نامی دار ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین کی شوگر کمپنی کی 100 ارب روپے کے سیلز میں سے 71 ارب روپے کے قریب بے نامی ٹرانزیکشن ہونے کا شبہ پایا گیا ہے

اسد عمر کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام

تحقیقاتی رپورٹ  میں وفاقی وزیر اسد عمر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ صوبوں کو سبسڈی دینے کا اختیار دینے پر مطمئن نہیں کر سکے۔ 

رپورٹ کے مطابق ترین کی شوگر مل کی جانب سے گڈز ٹرانسپورٹ کے ٹرک ڈرائیورز کے نام پر بے نامی ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

اسد عمر نے کمیشن کے سامنے بیان دیا کہ ملک میں زر مبادلہ بڑھانے کی اشد ضرورت تھی اور چینی کی وافر مقدار کو دیکھتے ہوئے برآمدی سبسڈی دینے کی منظوری دی گئی۔
اسد عمر نے کمیشن کو بتایا کہ چینی کے ذخائر وافر مقدار میں تھے اس لیے یہ درست نہیں کی چینی کی قیمتوں میں اضافہ برآمد کے سبب بوا۔ 
اسد عمر کے مطابق گنے کی فصل تیار ہونے کے قریب ملز مالکان نے برآمدی سبسڈی نہ ملنے تک کرشنگ نہ کرنے کی دھمکی دی۔
رپورٹ میں کہا گیا یے کہ اسد عمر کمیشن کو اس بات پر مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور شوگر ایڈوائزی بورڈ بروقت فیصلہ لینے میں ناکام رہا۔

شوگر بحران پنجاب حکومت کا کردار

رپورٹ میں کہا گیا یے کہ ای سی سی میٹنگ سے  قبل ہی پنجاب حکومت نے سبسڈی دینے کی اصولی منظوری دے دی تھی۔
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے تحقیقاتی کمیشن کو بتایا کہ کابینہ کی کمیٹی برائے شوگر کی 17 دسمبر 2018 کو ہونے والی میٹنگ میں سبسڈی کی سفارش کی جو کہ کابینہ نے 29 دسمبر 2018 کو منظور کی۔
جب ان سے 6 دسمبر کو پنجاب کابینہ کی میٹنگ کے حوالے سے پوچھا گیا جس میں 5 روپے فی کلو کے حساب سے سبسڈی دینے کی اصولی منظوری دی گئی تو عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ انہیں یہ میٹنگ یاد نہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے سبسڈی دینے کے لیے ڈالرز کے ریٹ کے حوالے سے کوتاہی برتی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کے بعد سبسڈی دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
کمیشن نے اس حوالے سے جب سیکرٹری فوڈ شوکت علی سے پوچھا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا معاملہ نظر انداز ہوا۔
کمیشن نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی بلا جواز تھی۔ وزیر اعلی پنجاب اسے متفقہ فیصلہ قرار دیتے رہے لیکن 6 دسمبر 2018 کو ہونے والی کابینہ اجلاس کے منٹس بالکل اس کے برعکس ہیں۔ جبکہ عثمان بزدار کا دعویٰ ہیں کہ انہیں اس اجلاس کے بارے کچھ یاد ہی نہیں۔

شیئر: