Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیکسا میتھازون کورونا کے کن مریضوں کے لیے مؤثر دوا ہے؟

برطانیہ میں ڈیکسا میتھا زون کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)
برطانوی طبی ماہرین کی جانب سے ڈیکسا میتھا زون کو ایک حد تک کورونا کے مریضوں کے علاج میں معاون بتائے جانے کے بعد یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ شاید کورونا کا علاج دریافت ہو گیا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو ایسے کون سے مریض ہوں گے جو کسی حد تک اس سے استفادہ کر سکتے ہیں؟
یہ سوال سب سے اہم ہے کیوں کہ ڈیکسا میتھا زون بنیادی طور پر ایک سٹیرائیڈ ہے اور ماہرین کے مطابق اس کے ان گنت سائیڈ ایفیکٹس بھی ہو سکتے ہیں۔
لاہور میں کورونا کے مریضوں کا پچھلے کئی مہینوں سے علاج کرنے والے ڈاکٹر عدنان جبار اس نئی دریافت سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ میں خود بھی کورونا کا شکار رہ چکا ہوں اور میرا پورا خاندان اس سے گزر چکا ہے، حتیٰ کہ میرا چھ ماہ کا بچہ اور میرے والدین بھی اور میں مسلسل لاہور کے کئی ہسپتالوں میں آئی سی یو میں کووڈ 19 کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔ میرے خیال میں پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیکسا میتھا زون ہے کیا؟'
ان کے بقول 'یہ ایک سٹیرائیڈ ہے جو انسانی جسم میں پہلے سے موجود ایسے سٹیرائیڈ جو قدرتی طور پر موجود ہوتے ہیں اور ان کا کام مدافعتی نظام کو ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے یعنی انفلیمیشن کو کنٹرول رکھنا ہوتا ہے، کو بڑھاوا دیتا ہے اور آپ کو مدافعتی نظام اگر تباہی کے دہانے پر ہے تو ایک حد تک اسے ضرور اس سے فائدہ ہو سکتا ہے۔'
ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں کہ کورونا کے مریضوں میں چونکہ مدافعتی نظام خاصاً کمزور ہو جاتا ہے لیکن ہر ایک مریض میں اس کی پیچدگی مختلف ہوتی ہے۔ اگر کوئی مریض آٹو امیون ڈیزیز کا شکار ہے تو اسے آپ ڈیکسا بالکل بھی نہیں لگا سکتے۔

ڈیکسا میتھازون وینٹیلیٹر پر موجود مریضوں کے لیے استعمال ہوتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

وہ کہتے ہیں کہ ڈیکسا صرف ان مریضوں کو ڈاکٹر تجویز کریں گے جو وینٹیلیٹر پر ہوں اور ان کا جسمانی نظام اس بات کی اجازت دیتا ہو کہ سٹیرائیڈ کو سہار سکے۔
'میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، کچھ دن پہلے میرے پاس آئی سی یو میں ایک مریض تھا جس کو سانس کی شدید دشواری تھی، ہم نے اس کے پھیپھڑوں سے ایک چھوٹی سی سرجری سے پانی نکال دیا تو کچھ ہی گھنٹوں میں وہ بہتری کی طرف گامزن ہو گیا۔ میں کہنا یہ چاہا رہا ہوں کہ ڈیکسا میتھا زون یا دوسرے سٹیرائیڈ کا استعمال ڈاکٹر کووڈ کے مریضوں میں پہلے بھی کر رہے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون سی چیز کس حد تک کارگر ہے، اس کو ایسے نہیں لینا چاہیے کہ جیسے کوئی علاج دریافت ہو گیا ہے۔'
ماہر غذایات اور مدافعتی نظام کی ماہر ڈاکٹر سحر جاوید چاولہ بھی ڈاکٹر عدنان سے اتفاق کرتی ہیں۔
ان کے مطابق 'ایسے کسی بھی بریک تھرو کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے۔ جب کورونا کا کوئی باضابطہ علاج دریافت ہوگا۔ ابھی حال ہی میں لوگوں نے سنا مکی میں اس کا علاج ڈھونڈ لیا تھا۔ ابھی بھی برطانیہ کے ڈاکٹروں نے جو بیان جاری کیا ہے اس میں بھی ڈیکسا میتھا زون کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ امید نہیں ہے۔'

پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے (فوٹو: روئٹرز)

وہ کہتی ہیں کہ 'پہلی بات تو یہ ہے کہ آٹھ میں سے ایک مریض کے بچ جانے کا تناسب بتایا گیا ہے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، بات صرف یہ ہے کہ اس کا استعمال اتنا باریک بینی سے پہلے بھی ہو رہا ہے، جتنی باریک بینی سے ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہی سٹیرائیڈ اگر ذرا سے بھی جلدی میں یا پیچدگی کے برعکس استعمال ہو گیا تو یہ جتنا فائدہ مند ہو سکتا اس سے زیادہ خطرناک ہو جائے گا۔ لہذا لوگ اس کو ڈاکٹروں پر ہی چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا۔ اور سنا مکی کی طرح اسے خود سے خریدنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔'

شیئر: