Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آم کی بے حرمتی: انور رٹول سے انور ڈیٹول

حسِ لطیف رکھنے والا کوئی شخص آم کے لطف سے انکار نہیں کرسکتا (فوٹو:اے ایف پی)
شاہ جمشید اوراس کے پیالے کو فارسی کے اساطیری ادب میں غیر معمولی مقام حاصل ہے۔ یہ پیالہ بادشاہ کی نسبت سے ’جامِ جمشید‘، ’جامِ جم‘  اور’ساغرِجم‘ کہلاتا ہے۔ میرزا غالب کو اصرار ہے کہ ’ساغرجم‘ سے مرا جام سفال اچھا ہے۔'
غالب نے’ساغرجم‘ ہی پر بس نہیں کیا، بلکہ ’تُرنجِ زر‘ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ سونے کی نارنگی (ترنجِ زر) بادشاہ ’خسروپرویز‘ کی ملکیت تھی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ ہاتھ سے دبانے پر یہ موم کی طرح دب جاتی تھی۔ غالب اس خوش رنگ ’ترنج‘ کے مقابلے پرخوش مزہ و خوش بودار’آم‘ لے آئے:
 
تھا ’ترنج زر‘ ایک خسرو پاس 
رنگ کا زرد پر کہاں بو باس 
آم کو دیکھتا اگر اک بار 
پھینک دیتا طلائے دست افشار 
بات ایسی غلط بھی نہیں۔ حسِ لطیف رکھنے والا کوئی شخص آم کے لطف سے انکار نہیں کرسکتا۔ آپ انار، انگور، سیب، آڑو، ناشپتی، کیلا، آلو بخارہ اور خوبانی سمیت درجہ اول میں شامل کسی بھی پھل کی بات کرلیں، ایک ہی نشست میں جس قدرآم کھایا جاتا ہے، کوئی دوسرا پھل پاسنگ کو بھی نہیں آتا۔ اسی لیے’آم‘ پھلوں کا بادشاہ کہلاتا اور بادشاہوں کے منہ کو آتا ہے۔

ایک ہی نشست میں جس قدرآم کھایا جاتا ہے، کوئی دوسرا پھل پاسنگ کو بھی نہیں آتا (فوٹو:اے ایف پی)

کہتے ہیں ’محمود غزنوی نے پہلے پہل آم کھایا تو اسے بہت بھایا۔ مگر اس کا نام ’آم‘ اسے بالکل پسند نہ آیا اوربول اٹھا ’ایسا لطیف میوہ اور نام میں یہ فحش۔ اسے ’نَغزَک‘ کہنا چاہیے کہ اسم بامسمّیٰ ہو‘۔ ’آم‘ میں فحش کیا ہےِ نہیں پتا البتہ’نَغزَک‘ کے معنی بتا دیتے ہیں، یہ’نغز‘ سے ’نغزک‘ ہے، اس کے معنی میں’’عمدہ، خوب، اچھا، فائق، افضل، اعلیٰ، انوکھا، لطیف ، نادراور نایاب‘ شامل ہیں۔
سچی بات ہے ایک ’نایاب‘ کو چھوڑ کر’نغزک‘ کے ہرمعنی ’آم‘ پر صادق آتے ہیں۔ انہی خوبیوں کی رعایت اور محمود غزنوی کی ہدایت کے سبب فارسی اوراردو میں ’آم‘ کو مجازً ’نغزک‘ کہا جاتا ہے۔
غزنوی کے بعد فرغانہ کے مغلوں کو بھی ’آم‘ خوب بھایا۔ مغل اعظم نے آم کی آبیاری کا بِیڑا اٹھایا اور’دربھنگہ‘ میں آم کے ایک لاکھ  درخت لگا کر صوبہ بِہار کو پُربَہار بنا دیا۔ اکبرکا پڑپوتا ’اورنگ زیب عالمگیر‘ اقتدار میں آیا تو اُس نے محمود غزنوی کا اعتراض دہرایا اوراس پھل کا نام ’رسال‘ تجویز کیا۔
’رسال‘ کے معنی ’رس والا‘ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’آم‘ کو اُس کی رسیلی خوبیوں کی وجہ سے سنسکرت میں مجازاً ’رسال‘(rasAla/रसाल ) کہا جاتا ہے۔ 
مغلوں کی’آم‘ دوستی اُن کے عہد زوال میں بھی برقرار رہی۔ اُن کا اقتدار جب سمٹ سمٹا کر لال قلعے تک محدود ہوگیا، تو اُس وقت بھی لال قلعے میں آم کا باغ موجود تھا، جس کا نام ’حیات بخش‘ تھا۔ اس باغ میں آم کے بعض درخت خاص الخاص قسم کے تھے۔
جہاں تک  آموں کی اقسام کی بات ہے تو اس وقت دنیا میں پندرہ سو اقسام کے آم پائے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک ہزار قسم کے آم انڈیا میں اور دوسو قسم کے پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں۔ آم کی ان سینکڑوں اقسام میں سے ہم درج ذیل چند ہی کے نام جان سکے ہیں:

کہتے ہیں ’محمود غزنوی نے پہلے پہل آم کھایا تو اسے بہت بھایا (فوٹو:اے ایف پی)

الفانسو، الماس، انور رٹول، بادام، بے نشان، بینگن پھلی(بنگن پلی)، بیگم پسند،ثمربہشت، دسہری، سرولی، فجری، سفیدہ، سندھڑی، سہارنی، سیندوریا، توتا پری، لال پری۔ لنگڑا، مالدا، نیلم، پرنس،چونسا، سفید چونسا، کالا چونسا،گولا، امرپالی، حسن آرا، بہیلی، بمبیا، قسم بھوگ، کلکتیہ، بجّو، حمایت، ملغوبہ، شکر گلٹی، ہاپُس اورہاتھی جھول۔
’ہاتھی جھول‘ آم سہارنپور(انڈیا) میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ وزن میں ساڑھے تین کلو تک کا ہوتا ہے، اسے دنیا کا سب سے بڑا آم مانا جاتا ہے۔
لگے ہاتھوں کچھ ذکر ’انوررٹول‘ کا بھی سن لیں۔ ہمارے احباب میں شامل ایک صاحب کو شاید پہلی بار آم کی کوئی نئی قسم چکھنے کا موقع ملا۔ ملاقات ہوئی تو اس نئے آم کی تعریف کے پل باندھ دیے۔
ہم نے آم کا نام پوچھا تو بولے ’انور ڈیٹول‘، ہم نے تصحیح کرنا چاہی  کہ آپ غالباً ’انوررٹول‘ کہنا چاہ رہے ہیں۔ مگر انہوں نے ہماری پیش نہ چلنے دی اور ’انورڈیٹول‘ ہی پر اڑے رہے۔ اگلی ملاقات میں محض اس قدر ترمیم ہوئی کہ جسے وہ ’انورڈیٹول‘ کہہ رہے تھے اب اُس کا تذکرہ ’انورٹٹول‘ کے نام سے کررہے تھے۔
میرزاغالب ’آم‘ کھانے کے شوقین تھے ان کا یہ جملہ ’آم رس‘ سے لکھے جانے کے لائق ہے کہ:’آم میٹھے ہوں اورڈھیرسارے ہوں۔' یہ بات دلچسپ ہے کہ آج جس آم کی شیرینی کے اس قدر چرچے ہیں یہ ہمیشہ سے میٹھا نہیں تھا۔
عظیم مسلم ماہر نباتیات ’ابو حنفیہ دینوری‘ نے،جو ہزار برس پہلے ہوگزرا ہے، ’آم‘ کو کڑوے اور کھٹے پھلوں میں شمارکیا ہے۔ 
’ابو حنفیہ دینوری‘ سے بہت پہلے ہندوستان آنے والے آریاؤں کو ’آم‘ کے کھٹے ہونے کا تجربہ ہوچکا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اسے ’آمل‘ پکارا۔ واضح رہے کہ آریاؤں کی زبان سنسکرت میں ’کھٹے‘ کو ’آمل‘ کہتے ہیں۔ اسے آپ لفظ ’املی‘ سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں جسے سنسکرت میں ’امیلکا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

اس وقت دنیا میں پندرہ سو اقسام کے آم پائے جاتے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

خیر یہ ’آمل‘ حرف ’ل‘کے ’ر‘ سے بدلنے پر ’آمر‘ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اور ہندی میں آم کے درخت کو ’امر‘ اور باغ کو’امریاں‘ کہا جاتا ہے۔ بعد میں ’آمر‘ کا ’رے‘ ساقط ہوگیا اور ’آم‘ باقی رہ گیا۔ مگر اس حال میں کہ اس کی کھٹاس مٹھاس میں بدل چکی تھی۔
لفظ ’آم‘ فارسی میں ’انبہ‘ کی صورت میں داخل ہوا اور وہاں سے سرزمین عرب پہنچتے پہنچتے ’انبج‘ ہوگیا۔ ویسے عربی میں ’آم‘ کو ’منجو‘ بھی کہتے ہیں،جو ظاہر ہے کہ انگریزی کے ’مینگو‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔
آم ہی کی طرح مزیداربات یہ بھی ہے کہ انگریزی کے ’مینگو‘ کی اصل بھی ہندوستان سے متعلق ہے۔ وہ یوں کہ جنوبی ہند کی مشہور’تامل‘ زبان میں ’آم‘ کو ’منگائی‘ کہتے ہیں، تامل کا یہ لفظ پرتگیزی زبان میں ’منگا‘ کی صورت میں داخل ہوا جو انگریزی میں پہنچ کر ’مینگو‘ ہوگیا۔
 اب اجازت چاہنے سے پہلے ہم لفظ ’آمل‘ کی رعایت سے ’املی‘ پر بات کریں گے۔ عرب جب ہندوستان آئے تو انہوں نے ’املی‘ کو ’تمرہندی‘ کا نام دیا، جس کے معنی ’ہند کی کھجور‘ ہیں۔ بعد میں عربی کا ’تمرہندی‘ ناصرف انگریزی زبان میں تمارند (tamarind) کی صورت میں داخل ہوا، بلکہ فرنچ، روسی، ڈچ اور جرمن زبان سمیت متعدد یورپی زبانوں میں یہ ملتی جلتی صورت کے ساتھ آج بھی موجود ہے، اور یورپی زبانوں پر عربی اثرات کی گواہی دے رہا ہے۔
بات آم سے شروع ہوئی اور املی تک پہنچ گئی۔ ایسے میں املی کی رعایت سے کیف بھوپالی کا ایک کھٹا میٹھا شعر سنیں اور ہمیں اجازت دیں :
 تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے

شیئر: