Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پھلوں کا بادشاہ اب مہنگا نہیں

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اور پاکستانی آم کا ذائقہ اور خوشبو تو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا اچھی کوالٹی کا آم ہر سال بڑی مقدار میں بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے جبکہ مقامی شائقین گلہ کرتے ہیں کہ انہیں بہترین درجے کا آم مہنگے داموں ہی میسر آتا ہے۔ 
لیکن اس سال دنیا بھر میں پھیلی کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں دیگر تمام شعبوں میں نقصانات ہو رہے ہیں وہیں پاکستان کے آموں کی برآمد میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے جس کا براہ راست فائدہ مقامی مارکیٹ اور گاہکوں کو ہو رہا ہے اور سیزن کے آغاز میں ہی ملک بھر میں اچھی کوالٹی کے آم کی فراوانی ہو گئی ہے۔ 
پاکستان میں آم کی سالانہ پیداوار 19 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ پاکستان فروٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق پاکستان نے گذشتہ سال ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن آم برآمد کیا تھا، جو کل پیداوار کا تقریباً 7 فیصد بنتا ہے جب کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال آموں کی برآمد سے 750 ملین ڈالر کمائے گئے تھے جس میں رواں برس چالیس فیصد کمی کا خدشہ ہے۔ 
پاکستان میں آموں کے ایک بڑے ایکسپورٹر بابر درانی کے مطابق سال 2020 میں آم کی برآمد سے 300 سے 400 ملین ڈالر تک زر مبادلہ کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
بابر درانی کا کہنا ہے کہ پاکستانی آم کی بڑی مارکیٹ یورپ ہے تاہم اس سال فضائی آپریشن میں رکاوٹ کے باعث اتنی زیادہ مقدار میں آم برآمد نہیں ہو رہا جتنی اچھی اس سال فصل لگی ہے۔
’اس سال ہمارے پاس صرف ایران، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کی منڈیاں ہیں جہاں آم ایکسپورٹ کر سکیں، مگر حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے وہ ٹارگٹ بھی پورا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔‘

پاکستان میں آم کی سالانہ پیداوار 19 لاکھ میٹرک ٹن ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’لاک ڈاؤن کی وجہ سے بارڈر بھی جزوی طور پہ بند ہیں اور جب کھلتے بھی ہیں تب بھی آموں کی برآمد کو ترجیح نہیں دی جاتی جس وجہ سے ہزاروں میٹرک ٹن آم تفتان بارڈر پر خراب ہو رہا ہے۔‘ 
بابر درانی نے بتایا کہ آم کی برآمدات میں سے بیس فیصد یعنی 15 ہزار ٹن ایران برآمد کیا جاتا ہے مگر اس سال اب تک صرف 800 ٹن آم ایران برآمد کیا جا سکا ہے۔ سرحد کھلنے کے بعد صرف 3 دن یعنی پیر، بدھ اور ہفتے کی صبح 10 بجے سے 3 بجے دوپہر تک برآمدات کی اجازت دی گئی ہے اور اس مختصر وقت میں ایل پی جی اور دیگر اشیا کی گاڑیوں کی مسلسل آمد کے باعث ایران آم لے جانے والے خالی ٹرک پاکستان نہیں پہنچ پا رہے۔
’حکام ایل پی جی اور ایل این جی کی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں جس کے باعث 400 ملین روپے مالیت کی کنسائنمنٹ پاک ایران سرحد پر خراب ہو رہی ہے اور برآمد کنندگان کو اور ملک کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔

مقامی شائقین کے لیے اچھا آم سستے داموں 

کورونا نے پاکستانی آموں کی برآمد تو کم کر دی ہے لیکن اس سے آم کے مقامی شائقین کو فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ اعلٰی درجے کا آم کم قیمت میں ملک بھر میں دستیاب ہو رہا ہے۔
کراچی میں آم کے بیوپاری عبدالوحید نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا  کہ کورونا وائرس کی وجہ سے آم کی برآمد میں کمی آنے کے بعد  فروٹ منڈیاں اعلٰی درجے کے آم سے بھر گئی ہیں۔ 
’ابھی تو آم کے سیزن کا آغاز ہوا ہے اور ابھی صرف وسطی سندھ کے علاقوں کا آم منڈی میں آیا ہے اور اسی سے مارکیٹ اس قدر بھر گئی ہے کہ ہر کونے پر کثیر مقدار میں آم فروخت ہو رہا ہے۔‘

گذشتہ سال آم کی برآمد سے 750 ملین ڈالر کمائے گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

عبدالوحید کے مطابق رواں سال مقامی مارکیٹ میں آم کی قیمت میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔
’گذشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو اس سال آم 30 سے 50 روپے فی کلو کم قیمت پر دستیاب ہے۔ سیزن کے شروع میں ہی اچھا آم 100 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ جب سکھر، رحیم یار خان اور ملتان کا مال مارکیٹ میں آئے گا تو قیمت مزید کم ہونے کا امکان ہے۔‘ 
’اس سال کوئی آم کے متعلق شکوہ نہیں کر سکے گا۔‘
بابر درانی کہتے ہیں کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے کہ تمام تر درجہ اول آم بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ برآمد کیا جانے والا آم مکمل پیداوار کا صرف 6 سے 7 فیصد ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس سال بہترین کوالٹی کا آم بھی ہر جگہ کم قیمت اور وافر مقدار میں دستیاب ہو گا۔
’جو آم برآمد ہونا ہوتا ہے وہ باغات سے نیم پکی حالات میں ہی توڑ لیا جاتا ہے۔ ایکسپورٹ کا آم مشینوں اور ہاتھوں سے چنا جاتا ہے اور ذائقے کے علاوہ آم کی خوبصورتی بھی مدنظر رکھی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو آم مقامی مارکیٹ میں آتا ہے وہ بھی وہی کوالٹی ہوتی ہے جو باہر بھیجا جاتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ اس کی نقل و حمل اور چنائی میں احتیاط نہیں برتی جاتی جس کی وجہ سے آم 'زخمی' ہو جاتا ہے اور اس پر داغ آجاتے ہیں جس سے پھل کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔‘
 انہوں نے بتایا کہ مقامی منڈی میں فروخت ہونے والے آم کو کاربیٹ میں پکایا جاتا ہے جو مضر صحت ہے، اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں اور پھل کا ذائقہ متاثر ہونے کی ایک وجہ بھی ہے جب کہ عالمی مارکیٹ میں ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔ ایکسپورٹ ہونے والے آم کو ایتھلین کے ذریعے پکایا جاتا ہے جو محفوظ طریقہ ہے۔
’اگر دبئی کی مارکیٹ میں پھلوں میں کیلشیئم کاربائیڈ کی موجودگی پکڑی جائے تو اس پر پانچ سال تک قید کی سزا ملتی ہے۔‘

پاکستانی آم کی بڑی مارکیٹ یورپ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 بابر درانی کہتے ہیں کہ پاکستان نے آم کی برآمدی مارکیٹ سے ابھی تک مناسب فائدہ نہیں اٹھایا۔ 
’ہم نہ صرف تیار آم بلکہ ویلیو ایڈڈ پراڈکٹ بھی برآمد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا سندھڑی آم دنیا میں آم کی وہ واحد قسم ہے جس میں فائبر نہیں ہوتا، اس آم کو ڈرائی پراڈکٹ کے طور پر ایکسپورٹ کر کے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔‘ 

باغ سے منڈی تک آم میں کیا تبدیلی آتی ہے؟

27 سال سے زائد عرصے سے آم کے کاروبار سے وابستہ عبدالوحید کے مطابق جو آم بازار میں سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے وہ باغ کے مالک سے 40 روپے کلو تک میں خریدا جاتا ہے، منڈی تک پہنچ کر اس کی قیمت 2 ہزار روپے من (50 روپے کلو) ہو جاتی، لیکن ابھی وہ کچی حالت میں ہوتا ہے جسے پاؤڈر ڈال کر چار پانچ دن تک پکایا جاتا ہے اور پھر اسے مقامی تاجر کو 10 سے 15 روپے فی کلو منافع پر بیچ دیا جاتا ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ وہ آڑھتیوں سے آموں کی پیٹیاں لینے کے بجائے براہ راست باغوں سے کھلے ڈھیر میں آم خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس میں بچت زیادہ ہوتی ہے۔ 
’پیٹی بنانے کا اپنا خرچہ ہے جبکہ اس کی مزدوری بھی دینا پڑتی ہے، لہٰذا ہم منڈی میں آڑھتیوں کی بجائے براہِ راست باغات سے آم منگوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ مخصوص آم جیسے کہ سرولی اور چونسا، وہ پیٹی کے حساب سے آڑھتی سے ہی لینا پڑتا ہے۔ اس میں بچت کم ہوتی ہے۔‘

رواں سال آم 30 سے 50 روپے فی کلو کم قیمت پر دستیاب ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 بابر درانی کہتے ہیں کہ پاکستان نے آم کی برآمدی مارکیٹ سے ابھی تک مناسب فائدہ نہیں اٹھایا۔ 
’ہم نہ صرف تیار آم بلکہ ویلیو ایڈڈ پراڈکٹ بھی برآمد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا سندھڑی آم دنیا میں آم کی وہ واحد قسم ہے جس میں فائبر نہیں ہوتا، اس آم کو ڈرائی پراڈکٹ کے طور پر ایکسپورٹ کر کے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔‘ 

برآمدات میں کمی کا بے روزگار افراد کو فائدہ

نہ صرف آم  بلکہ کئی دیگر پھل جیسے چیری، خوبانی وغیرہ کی برآمد بھی اس سال کم ہوئی ہے اور وہ مقامی منڈیوں میں نسبتاً زیادہ مقدار میں موجود ہیں جس کا فائدہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد بھی اٹھا رہے ہیں۔
عبدالوحید کے مطابق  ان کے پاس جو ریڑھی بان اور دکان دار مال لینے آتے ہیں اس میں سے کئی ایسے ہیں جو پہلی بار یہ کام کر رہے ہیں۔ ’میں نیا آدمی دیکھتا ہوں تو پوچھتا ہوں، تو پتا چلتا ہے کہ کوئی پہلے ڈرائیور تھا یا مزدوری کرتا تھا مگر ابھی کام نہیں ہے تو سوچا پھل بیچ لوں۔‘  

شیئر: