Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پب جی: پنکھے سے جھولتی لاش اور موبائل پر ’لیول فیلڈ‘ کا نوٹس

’میں نہیں مانتا کہ یہ واقعہ گیم کی وجہ سے پیش آیا۔۔۔' فائل فوٹو: اے ایف پی
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں دو نوجوانوں کی خودکشی پب جی گیم کی وجہ سے ہوئی ہے۔
لاہور پولیس کی جانب سے دو خودکشی کے واقعات کو پب جی گیم سے اس وقت جوڑا گیا جب ایک واقعہ جمعرات کو صدر کینٹ کے علاقے میں پیش آیا جب 20 سالہ نوجوان نے مبینہ طور پر خودکشی کی۔
پولیس کے مطابق عمران (فرضی نام) کو اس کے والدین نے مسلسل گیم کھیلنے سے منع کیا جس پر اس نے خود کشی کر لی۔
تھانہ شمالی چھاؤنی پولیس کے مطابق عمران کے والد نے پولیس کو بیان دیا کہ ’ہمارا بیٹا مسلسل گیم کھیلتا رہتا تھا، ہم نے بہت بار منع کیا لیکن وہ نہیں مانتا تھا۔ اب ذرا سختی سے منع کیا تو اس نے اپنی جان لے لی۔‘
دوسرا واقعہ منگل 23 جون کو ہنجروال کے علاقے میں پیش آیا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ پہلے والے سے مختلف ہے۔ اس میں والدین نے کامران (فرضی نام) کو گیم کھیلنے سے تو منع نہیں کیا البتہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آن لائن گیم میں کامران کو گیم کی طرف سے ٹاسک ملا تھا جو اس سے پورا نہیں ہوا اور اس نے خود کشی کر لی۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’یہ کیس منفرد ہے۔ یہ تو بات سامنے آ چکی ہے کہ جو بچے اس گیم کے عادی ہیں ان کو اس سے ہٹانا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن اس کیس میں نئی بات سامنے آئی ہے کہ گیم کے اندر کچھ ایسے مدارج ہیں جن کو گیم کھیلنے والے بہت سنجیدہ لیتے ہیں۔ اور سٹیج عبور نہ کرنا بھی ذہنی صدمے کا سبب بن رہا ہے۔‘

اس سے پہلے بھی پب جی نامی گیم کو بند کروانے کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جب پولیس نے کامران کی لاش قبضے میں لی تو اس وقت بھی اس کے موبائل پر گیم آن تھی اور گیم پر فیل شدہ لیول موجود تھا اور نوجوان کی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس کو گیم کھیلنے سے کسی نے نہیں روکا تھا۔
ڈی آئی جی آپریشن کے مطابق پولیس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ گیم نوجوانوں کو انتہائی عادی بنا رہی ہے اور آئس جیسے نشے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ’بلکہ میں تو اس حد تک کہوں گا کہ یہ ’ڈیجیٹل ایڈیکشن‘ ہے جس کا سدباب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ معاملہ پولیس کے لیے بالکل نیا ہے اور ہم ان سطور پر سوچ رہے ہیں کہ اس گیم کو بند کروانے کے لیے وفاقی اداروں جیسا کہ ایف آئی اے سے رابطہ کیا جائے اور اس کے اوپر مزید غور کیا جا رہا ہے۔‘

'نوجوان کو اس کے والدین نے مسلسل گیم کھیلنے سے منع کیا جس پر اس نے خود کشی کر لی' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف کامران کے والد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے کی ہلاکت کی کوئی دیگر وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ’میں نہیں مانتا کہ یہ واقعہ گیم کی وجہ سے پیش آیا۔ ہم نے اس کو منع نہیں کیا۔ ایسے کیسے ہو سکتا کے کہ گیم کا لیول پورا کرنے کے لیے کوئی جان لے لے؟ ہو سکتا ہے میرے بیٹے کے ساتھ کوئی اور معاملہ ہو جو ہمیں پتا نہیں چل سکا۔‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی پب جی نامی گیم کو بند کروانے کے لیے صوبے کی ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کی معروضات سننے کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ہدائت نامہ جاری کیا تھا کہ وہ اس گیم سے متعلق نقصانات کا اندازہ کر کے کوئی پالیسی مرتب کرے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔

شیئر: