Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مستقبل بچانا ہے تو بچوں کو وقت دینا ہوگا

وڈیو گیمز کے بجائے بچوں کا کھلی فضا میں بھاگنا دوڑنا ذہنی نشونما کے لیے بھی مفید ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
کھلونے بچوں کی تفریح کا سامان ہیں۔ مجھے یاد ہے میری دادی بتاتی تھیں کہ تقسیم ہند سے پہلے جب وہ جالندھر میں رہتے تھے تو سب لڑکیاں بہت شوق سے مٹی کے برتن خریدتی تھیں۔ ان کی امی انہیں کپڑے کی گڑیا بنا کردیتی تھیں پھر اس گڑیا کے کپڑے بنائے جاتے۔ سب بچے مل کر گڈے گڑیا کی شادی کرتے۔ لڑکے زیادہ گگو گھوڑے، کاغذ کی کشتی، لٹو، بنٹے، غلیل سے کھیلا کرتے، دوڑ لگاتے اور تیراکی بھی شوق سے کرتے تھے۔ اس وقت کی سب سے بڑی تفریح باغ میں جاکر کھیلنا اور پھل توڑ کر کھانا ہوتا تھا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کھلونے تبدیل ہوتے رہے۔ پلاسٹک کی گڑیا بنے لگیں، اس کے سنہری بال اور نیلی آنکھیں ہوتی تھیں۔ پلاسٹک کی گاڑیاں اور کھلونے تیار ہونے لگے۔ پلاسٹک کے برتنوں سے بچیاں گھر گھر کھیلتی تھی۔
گلی میں کھلونے والے بانس سے بنی گاڑی لاتے جو چلتی تو ساتھ لگا ڈھول بھی بجتا تھا۔ کھلونے والے ایک جادوئی ڈبہ بھی سائکل پر لگا کر لاتے، جس میں دنیا بھر کے اہم مقامات نظر آتے تھے۔ لڈو، غبارے، پانی والی پستول، گڑیا کا گھر،گاڑیاں، چابی والا بندر جو ڈرم بجاتا تھا، سٹیل کی کشتی، جھنجھنا، باجے، بیٹ بال، ریکٹ، بال اور چابی والا چوں چوں کرتا چوزہ بچوں کے پسندیدہ کھولنے ٹھہرتے۔ گلی میں غبارے والا آتا تھا جو غبارے سے کبھی بندوق بنا دیتا تو کبھی پرندہ بنا دیتا تھا۔ بچے پرانے ٹائر کو ڈنڈے سے چلا کر کھیلا کرتے تھے۔ بلبلے والا آتا تو سب بچے اس سے خرید کر پورا دن بلبلے بناتے نظر آتے۔ ایک پلاسٹک کا گھوڑا ہوتا تھا جس کو ٹائر لگے ہوتے، بچے اس کی سواری بہت پسند کرتے تھے۔ 80 کی دہائی کے آخر میں اسلحے جیسے کھلونے بھی بڑی تعداد میں مارکیٹ میں آئے۔

بدلتے وقت کے ساتھ بچوں کے کھلونے بھی بدلتے چلے گئے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

90 کی دہائی پاکستان میں الیکٹرونک کھلونوں کا دور تھا۔ سیل والا پیانو، سیل والا سپرمین، بیٹری والا گٹار، سیل والی گڑیا جو گانا بھی سناتی، رقص بھی کرتی۔ اس کے ساتھ اونو، باربی ڈول ہاؤس، بلاکس، سیل سے چلنے والی ٹرین، موناپلی، کچن سیٹ، گیند، بھالو، فشنگ گیم، سفید بیئر وغیرہ اس فہرست میں شامل تھے۔ بچے بازاروں میں ضد کرتے اور ان کی خواہش ہوتی کہ انہیں کھلونے اور بہت سارے سیل بھی خرید کر دیے جائیں تا کہ ان کے کھلونے ہنستے بولتے اور چلتے رہیں۔ وقت کا پہیہ گھوما اور سائیکل میں بھی بیٹری آگئی۔
اکیسویں صدی شروع ہوئی تو مزید جدت آئی اور بہت ایڈوانس کھلونے بننے لگے۔ سپر ہیروز والی ڈول، کارٹون کرداروں کی ہم شکل ڈولز، کارٹون سیریز کے کرداروں کے سیٹ اور گھر، لیگو، ویڈیو گیمز والے کھلونے، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے جہاز اور گاڑیاں، بیٹری والے کھلونے اور بجلی سے چلنے والے کھلونے بچوں اور لڑکپن کی عمر والوں کے پسندیدہ ٹھہرے۔
2010 کے بعد سے کھلونے اتنے ایڈوانس ہوئے کہ اب ان کی مخلتف اقسام ہیں۔ تعلیمی کھلونے، ایک سال سے کم عمر بچوں کے کھلونے، خصوصی بچوں کے کھلونے، ربڑ کے کھلونے، سائنسی کھلونے، کارٹون والے کھلونے اور کھانے پینے کی چیزوں کی اشکال کے کھلونے وغیرہ فہرست کا حصہ بن گئے۔

کھلونے مزید جدید ہوئے لیکن اب بچوں نے ان میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دی۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

لیکن ہوا یہ کہ2010  کے بعد سے بچوں میں کھلونوں کا شوق کم ہونے لگ گیا جس کی وجہ ویڈیو گیم، پلے اسٹیشن، موبائل، ٹیب اور پب جی ہیں۔ بچہ پیدا ہوتا ہے، ماں باپ گھر اور دفاتر کے کام میں اسے مکمل ٹائم نہیں دے پاتے۔ بچہ روتا ہے اسے گود میں لینے کے بجائے 3/4 ماہ کے بچے کے سامنے ٹیب یا موبائل رکھ دیا جاتا ہے۔ یہاں سے بچہ دوسرے کھلونوں میں دلچسپی کھو دیتا ہے۔ حال ہی میں ماہرین کے مطابق ایک گیم نے بچوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ وہ ہے پب جی (PUBG
پب جی انٹرنیٹ کے بغیر نہیں کھیلا جاتا۔ چار لوگوں کی ٹیم سے گیم شروع ہوتی ہے اور سو لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس گیم میں وائس کے ساتھ پلیرز رابطے میں ہوتے ہیں۔ جو کہ بچوں کے لیے انتہائی غیر مناسب ہے کہ وہ کسی بڑی عمر کے انجان شخص کے ساتھ آن لائن رابطے میں آئیں۔
گیم کا تھیم پر تشدد ہے،  کھیلتے ہوئے مسلسل مخالف کو گیم میں گولیاں ماری جاتی ہیں۔ بچے گھٹنوں فون، ٹیب اور لیپ ٹاپ کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ انہیں خوف ہوتا ہے کہ کوئی انہیں گیم میں گولی نہ مار دے، وہ ہار نہ جائیں۔ اکثر بڑے گیم ہارنے کی صورت میں گندی گالیاں دیتے ہیں جوکہ بچوں کے طرز گفتگو کو بھی متاثر کرریے ہیں۔ گیم میں ہر طرح کا اسلحہ ہے۔ ایک جنگ کا ماحول ہوتا ہے۔ چار کی ٹیم گنوں اور بموں وغیرہ کو ڈھونڈ کر دوسرے پلیئرز کو مارنے کی کوشش میں رہتی ہے، آخر تک جو بچے گا جیت اس کے نام رہے گی۔

گھر کے کام کی مصروفیت یا تھکن کے باعث بچوں کو ڈیوائسز کے حوالے کرنا درست عمل نہیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

گھر کے کام کے دوران مائیں اور دفتر سے تھک ہار کر آئے والد جب خود ہی بچوں کی فرمائشوں سے تنگ آکر لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا موبائل انہیں دیتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بچے دن کا بڑا حصہ ڈیوائسز میں مصروف رہتے ہیں۔ وقت پر سوتے نہیں، باتھ روم دیر سے جاتے ہیں، پڑھائی نہیں کرتے، گھر والوں سے بات نہیں کرتے، باہر گلی میں نہیں کھیلتے، کھانا نہیں کھاتے۔ بس ان کا مقصد دوسرے پلیئرز کو ویڈیو گیم میں مارنا ہوتا ہے۔
والدین بچوں کی زندگی کا ٹائم ٹیبل مرتب کریں۔ ان کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں صرف ایک گھنٹہ موبائل اور ٹی وی کی اجازت ہونی چاہیے، باقی وقت وہ کھیلیں، گھر والوں کے ساتھ بیٹھیں، وقت پر سوئیں اور وقت پر کھانا کھائیں ۔اگر ایسا نہیں ہوا تو بچوں میں انتہا پسندی سرایت کر جائے گی، وہ بیمار ہوجائیں گے۔ ان کی صحت اور بینائی متاثر ہوگی۔ بچوں کو پرتشدد گیمز کے ساتھ ساتھ اسلحہ کھلونوں سے بھی روکیں۔ بچے اصل اسلحے کو بھی کھلونا سمجھ کر چلا لیتے ہیں جس سے حادثات ہوتے ہیں۔ مستقبل بچانا ہے تو اپنے بچوں کو وقت دینا ہو گا۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں