Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پب جی پر پابندی کیوں ضروری اور کتنی ممکن؟

پب جی کو پرتشدد گیم ہونے کی وجہ سے ماضی میں بھی تنقید کا سامنا رہا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)
لاہور ہائی کورٹ نے ویڈیو گیم پب جی پر پابندی کے لیے درخواست پر پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا حکم دیا تو سوشل میڈیا صارفین نے ممکنہ پابندی پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے دیے گئے حکم پر عمل میں تو ابھی مہلت باقی ہے لیکن سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر پب جی (پلیئر ان نون'ز بیٹل گراؤنڈز) کی حمایت و مخالفت میں تبصرے کرنے والے ہی نہیں بلکہ ممکنہ نتائج کی پیش گوئی کرنے والے بھی فعال دکھائی دیے۔
پہلی مرتبہ 2016 میں ریلیز کی گئی آن لائن گیم پب جی کو تشدد بھرے گیم کے طور پر پہچانا جاتا ہے جسے آن لائن کھیلنے والے خود کو بچاتے اور مخالفین کو قتل کر کے اگلے مراحل تک پہنچتے ہیں۔ جنوبی کورین گیمنگ کمپنی کی بنائی گئی ایپلیکیشن کو ماضی میں چین، نیپال، انڈیا اور عراق میں پابندی کا سامنا رہا ہے۔
عدالتی حکم کے بعد پاکستان میں پب جی کے مستقبل کا معاملہ سامنے آیا تو صارفین نے گیم کے ذہنی صحت پر اثرات کو موضوع بنایا تو اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دے کر پابندی کی حمایت کی۔ ایسے میں کچھ صارفین نے پابندی کے اقدام پر تبصروں کے لیے طنزیہ جملوں، ذومعنی تصاویر اور میمز کا سہارا لیا تو اسے ’بچوں والی بات‘ تک کہہ ڈالا۔

پب جی پر ممکنہ پابندی کے حوالے سے دیگر معروف ایپلیکیشنز کے صارفین کے مبینہ تاثرات بھی بذریعہ میمز ٹائم لائنز تک آئے تو وہ گیمنگ ایپ استعمال کرنے والوں کو کہیں حوصلہ دیتے اور کہیں مذاق اڑاتے رہے۔

محمد سعد نے سابق آرمی چیف اور صدر مملکت رہنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سیلیوٹ کرتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی تو اسے ٹک ٹاکرز کی جانب سے ردعمل کے طور پر پیش کیا۔

ممکنہ پابندی کتنی موثر ہو سکتی ہے؟ کا موضوع بھی گفتگو کے شریک افراد کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اسامہ چوہدری نے لکھا ’ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کی موجودگی میں پب جی پر پابندی لگانا بیکار ہے۔

گیم کی افادیت اور اس کے اثرات کا ذکر ہوئے تو بہت سے صارفین نے پابندی لگائے جانے کی حمایت کرتے ہوئے اسے استعمال کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف قرار دیا۔

بھٹی نامی صارف بھی پابندی کے حامی دکھائی دیے۔ اپنے تبصرے میں پب جی کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک پر بھی پابندی تجویز کرتے ہوئے انہوں نے موقف اپنایا کہ دونوں وقت کا زیاں اور غیر مفید ہیں۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاطر محمود کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پب جی پر پابندی سے متعلق درخواست پر دلائل سننے کے بعد پی ٹی اے کو چھ ہفتوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں شہری نے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ویڈیو گیم پب جی بچوں کی شخصیت پر منفی اثر ڈال رہی ہے اور  بچوں میں قوت فیصلہ کی کمی اور شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ گیم کو پلے سٹور سے ہٹانے کا حکم صادر کیا جائے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: