ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں طبی عملے پر تشدد کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کو ڈاکٹروں اور طبی عملے کے تحفظ سے متعلق اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے خط لکھا ہے اور درخواست کی ہے کہ ہیلتھ ورکرز کی زندگیوں کو خطرات سے محفوظ بنایا جائے۔
بدھ کو عالمی ادارے کے جنوبی ایشیا کے لیے دفتر کے سربراہ عمر وڑائچ نے پاکستان کے وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ’کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد اس کی روک تھام کے لیے موجودہ صورتحال میں طبی عملہ نہایت غیر معمولی اور اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ہمیں پاکستان میں ان کے تحفظ کے حوالے سے تحفظات ہیں جن سے آپ کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔‘
خط میں ڈاکٹر ظفر مرزا کو بتایا گیا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپریل سے اب تک پاکستان میں ہیلتھ ورکرز کے خلاف تشدد کے کئی واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ ’ہسپتالوں پر حملے کیے گئے، کئی ڈاکٹرز تشدد کا نشانہ بنے اور ایک کو انسداد دہشت گردی فورس کے رکن نے گولی بھی ماری۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’موجودہ صورتحال میں ہر کسی کو وائرس لگنے کا خطرہ ہے مگر ہیلتھ ورکرز خاص طور پر اس کا نشانہ ہیں کیونکہ وہ ہروقت اس کے سامنے ہیں۔‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خط کے مطابق 29 جون تک کے پاکستان کے سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں طبی عملے کے کم از کم پانچ ہزار 367 ارکان وائرس کی زد میں آئے جن میں سے 58 کی موت ہوئی۔
خط کے مطابق یہ انتہائی دل شکن اعداد وشمار ہیں۔ ’لوگوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل سٹاف، ایمبولینس ڈرائیورز اور دیگر طبی عملہ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بہادری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس شعبے کے افراد نہ صرف ہماری ستائش اور مبارکباد کے مستحق ہیں بلکہ ان کو ریاست کی جانب سے تحفظ فراہم کیا جانا بھی ضروری ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ہیلتھ ورکرز کو روزانہ کی بنیاد پر حملوں کا سامنا ہے اور اصل تعداد ’شمار سے باہر‘ ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ طبی عملے پر زیادہ تر حملوں کی وجہ کورونا سے مرنے والے کی میت ایس او پیز کے مطابق لواحقین کو حوالے کرنا ہے جبکہ بعض جہگوں پر وسائل کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو بروقت طبی امداد نہ دینے پر بھی ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنایا گیا۔
خط میں 29 مئی کو کراچی کے سول ہسپتال پر حملے اور دو جون کو پشاور میں مریض کے لواحقین کے ڈاکٹر پر تشدد کے واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صرف خیبر پختونخوا میں طبی عملے پر حملوں کے 20 واقعات رپورٹ ہوئے۔
خط میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان حملوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ایسی کسی بھی واقعے کی فوری اور موثر غیرجانبدارانہ انکوائری کی جائے اور ملزمان کو سزا دی جائے۔
ایمنسٹی نے پاکستان کی حکومت اور وزارت صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو فوری طور پر حفاظتی لباس فراہم کیا جائے تاکہ وہ وائرس کا شکار نہ ہوں۔