Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ڈاکٹرز اور طبی عملہ کورونا کا شکار کیوں ہوئے؟

ڈاکٹر خضر کا کہنا ہے کہ حکومت کو عوام اور ڈاکٹرز کے سامنے سچ بولنا چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)
یہ مارچ کے آخری دن تھے۔ ڈاکٹر میاں محمد خضر ملتان کے نشتر ہسپتال میں حسب معمول معدے، جگر اور دیگر بیماریوں کے ساتھ آنے والے مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کوئی حفاظتی کِٹ نہیں بلکہ ماسک کے ساتھ عام لباس پہن رکھا تھا، کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کے مریضوں میں سے کوئی کورونا جیسے مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔
تاہم چند دن بعد شدید کھانسی کی وجہ سے ان کے لیے ڈیوٹی کرنا مشکل ہو گیا تو ان کا ٹیسٹ کروایا گیا جس کے بعد 11 اپریل کو پتا چلا کہ وہ خود بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے مریضوں میں سے چند حال ہی میں ایران اور عراق سے ہو کر آئے تھے۔
ڈاکٹر خضر کورونا کا شکار ہونے والے نشتر ہسپتال کے واحد ڈاکٹر نہیں بلکہ اسی دن ان کے ہسپتال کے 20 ڈاکٹروں اور دو نرسز کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا جن میں سے 12 تو ڈاکٹر خضر کے اپنے وارڈ میں ہی کام کرتے تھے۔

 

عالمی ادارہ صحت  (ڈبلیو ایچ او) کی اس ہفتے جاری ہونے والی ایک سیچویشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'پاکستان میں کم ازکم 376 ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کورونا کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ جان کی بازی بھی ہار گئے۔'
ڈبلیو ایچ او کی 27 اپریل کی ایک رپورٹ کے مطابق '181 ڈاکٹرز، 55 نرسیں اور 140 طبی عملے کے ارکان اس مہلک مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور ان میں سے 132 اب تک مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں جبکہ 152 سیلف آئیسولیشن میں ہیں۔ باقی 87 کورونا کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں۔'
ڈاکٹر خضر کورونا مثبت ہونے کے بعد دس روز زیر علاج رہے اور اب صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن ابھی سیلف آئیسولیشن میں ہیں۔ وہ چھ مئی سے ایک بار پھر ڈیوٹی پر جانے کو تیار ہیں۔
’مجھے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے بالکل ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی اپنی کوئی پریشانی ہے لیکن میرے ہاسٹل کے ساتھیوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی فیملیز ہیں اس لیے ان کے لیے بہت پریشان تھا، شکر ہے کہ ان کے ٹیسٹ منفی آئے۔‘

حکومت ڈاکٹروں کو سچ بتائے 

ڈاکٹر خضر کا کہنا تھا کہ 'حکومت کو عوام اور ڈاکٹرز کے سامنے سچ بولنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہمارا ملک غریب ہے اور دنیا بھر کی حکومتیں حفاظتی لباس (پی پی ای) وغیرہ کے حوالے سے قلت کا شکار ہیں، اس لیے حکومت کو بہت زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہتا۔'

ڈاکٹر خضر کے مطابق موجودہ صورتحال میں ہر ڈاکٹر خطرے میں ہے (فوٹو: روئٹرز)

'حکومت غلط بیانی نہ کرے کہ سب ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان میسر ہے بلکہ اسے اپنی پوزیشن واضح کر دینی چاہیے تاکہ ڈاکٹرز اپنے طور پر یا دیگر لوگوں کی مدد سے اپنے حفاظتی انتظامات کر سکیں۔ صرف کورونا کا علاج کرنے والے نہیں ہر ڈاکٹر خطرے میں ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ صرف ان ڈاکٹرز کو حفاظتی کٹس کی ضرورت ہے جو کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں لوگ اپنے مرض کو ظاہر بھی نہیں کرتے جیسا کہ میرے کیس میں مریضوں نے اپنی ٹریول ہسٹری نہیں ظاہر کی اور سیدھے ہسپتال کے دوسرے وارڈز میں آگئے اس لیے ہر ڈاکٹر جو چاہے آئی سی یو میں نہیں بھی ہے وہ خطرے میں ہے۔'
'ڈاکٹرز مریضوں کو دیکھنے سے انکار نہیں کر سکتے اس لیے حکومت سے درخواست ہے کہ وہ تمام ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان دے۔'
ڈاکٹر خضر نے عوام کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ 'وہ مکمل احتیاط کریں، سماجی فاصلے، ہاتھ دھونے اور دیگر تدابیر پر عمل کریں اور ہو سکے تو گھروں پر نماز پڑھیں اور انتہائی ناگزیر صورت حال کے بغیر ہسپتال نہ جائیں بلکہ ٹیلی میڈیسن کے ذریعے فون پر ڈاکٹرز سے ہدایات لے لیں۔ اس سب کا مقصد یہ ہے کہ  ہسپتالوں اور ڈاکٹروں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے اور جب کورونا کی صورت حال بگڑے تو علاج کے لیے ڈاکٹرز موجود ہوں۔'

’ایک ذرا سی غلطی اور بے احتیاطی سے ڈاکٹرز موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں‘ فوٹو: اے ایف پی

 ڈاکٹرز کی تربیت کا فقدان اور ڈیوٹی کے زائد اوقات

ڈاکٹر خضر کہتے ہیں کہ 'حفاظتی کٹس پہن کر بھی کچھ ڈاکٹرز کورونا کا اس لیے شکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں کٹس اور گلوز وغیرہ اتارتے وقت وائرس لگ جاتا ہے۔'
'ایک ذرا سی غلطی اور بے احتیاطی سے ڈاکٹرز موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹرز کو کٹس کے درست استعمال وغیرہ کے حوالے سے تربیت دے کیونکہ اس طرح کا مرض پہلی بار پاکستان آیا ہے اور ڈاکٹرز بھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔'
ڈاکٹر خضر کے مطابق 'ڈاکٹرز کی بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی لگتی ہے اور حفاظتی کٹس پہنے ہوئے کھانا پینا، آرام کرنا، واش روم جانا ممکن نہیں ہوتا اور سانس لینا تک مشکل ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کورونا وبا کے دروان ڈاکٹرز کی ڈیوٹی چھ گھنٹے تک رکھے تاکہ وہ تازہ دم ہو کر کورونا کے مریضوں کا علاج کر سکیں۔'

حکومت اور انتظامیہ سے ڈاکٹرز کی شکایات

لاہور کے جناح ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق 'حکومت اور انتظامیہ ڈاکٹرز کو ناقص سامان فراہم کر رہی ہے۔ بدھ کو بھی جناح ہسپتال کے طبی عملے کے تین مزید ارکان کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔'
 ’انتظامیہ ہمیں عام کپڑوں کے ناقص ماسک مہیا کر رہی ہے جو کسی طرح کا تحفظ فراہم نہیں کرتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'ہسپتالوں کے منتظمین حکومت اور میڈیا کے سامنے کارکردگی دکھانے کے لیے پی پی ای کٹس اور ماسک دکھا دیتے ہیں مگر کام کرنے والے ڈاکٹرز تک وہ نہیں پہنچ رہے۔'

ترجمان وزارت قومی صحت کے مطابق ڈاکٹرز کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے چند دن پہل منظر عام پر آنے والی تصاویر کا حوالہ دے کر کہا کہ ’حکومتی عہدیدارن تو این 95 ماسک پہن کر دوروں کی تصاویر بنواتے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹرز اور عملے کے ماسک عام اور ناقص ہوتے ہیں۔ کیا ڈاکٹرز کی زندگی سیاست دانوں یا اعلٰی عہدیداروں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں  رکھتی؟‘
 ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا کے شکار مریضوں کے مقابلے میں اس مرض کا شکار ہونے والے ڈاکٹرز کا تناسب دیکھا جائے تو پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔' 

 ڈاکٹرز کی حفاظت اولین ترجیح ہے: حکومت کا موقف

دوسری طرف وفاقی وزارت قومی صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے ملک میں کورونا وائرس کے شکار ڈاکٹروں کے معاملے کو سنجیدہ قرار دیتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ملک بھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے۔'
 'وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے چند دن قبل تمام صوبوں کے وزرائے صحت کے ساتھ اجلاس میں ڈاکٹروں کے تحفظ کے معاملے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور اقدامات کا فیصلہ کیا گیا۔ روزانہ اس معاملے پر اجلاس ہوتے ہیں تاکہ ملک بھر کے ڈاکٹرز تک این ڈی ایم اے کے ذریعے براہ راست حفاظتی کٹس پہنچائی جائیں۔' ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان پہنچایا جا چکا ہے اور کہیں قلت نہیں ہے۔'

ترجمان کے مطابق ڈاکٹرز کی قلت پر قابو پانے کے لیے اقدامات زیر غور ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

'ڈاکٹروں کو کورونا مریضوں کے علاج کے دوران اپنے بچاؤ کی تربیت کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے کتابچے بھی چھپوا کر ڈاکٹرز تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ صوبوں کو کہا گیا ہے کہ تربیت کے لیے اپنے اپنے فوکل پرسن مقرر کریں تاکہ وفاقی حکومت انتظامات کر سکے۔'
ترجمان نے بتایا کہ 'وفاقی حکومت نے دوران ڈیوٹی ہلاک ہو جانے والے ڈاکٹرز کے خاندان کے مالی امداد کے پیکج کا بھی اعلان کیا ہے جس کے تحت خدانخواستہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی موت کی صورت میں انہیں تیس لاکھ سے ایک کروڑ تک کی امداد حکومت فراہم کرے گی۔'
اس سوال پر کہ کیا ڈاکٹرز کے اوقات کار بھی کم کیے جا رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ 'ایسی کوئی تجویز صوبوں کی طرف سے بھی سامنے نہیں آئی۔ البتہ ڈاکٹرز کی قلت پر قابو پانے کے حوالے سے بھی اقدامات زیر غور ہیں۔'

شیئر: