امریکہ نے کہا ہے کہ افغان امن معاہدہ اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تشدد کو کم کریں تاکہ امن معاہدے کو آگے بڑھایا جا سکے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق امریکہ کو اگلے سال کے وسط تک افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکالنا ہوگا، اور طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن کے لیے مذاکرات کرنا ہوں گے۔
امریکہ نے کہا تھا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں 135 روز کے اندر وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے آتھ ہزار چھ سو پر لے آئے گا اور پانچ فوجی اڈے مکمل طور پر خالی کر دے گا۔
مزید پڑھیں
-
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا آغازNode ID: 463976
-
طالبان نے درجنوں شہریوں کو مغوی بنا لیاNode ID: 486896
-
طالبان کی روس سے مدد لینے کی تردیدNode ID: 488401
افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پیر کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’امریکہ نے معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت فوجی کی تعداد کم کرنے اور پانچ فوجی اڈے خالی کرنے کے وعدے پر عمل کیا ہے۔‘
’ہم قیدیوں کی رہائی، تشدد کم کرنے اور بین الاافغان مذاکرات پر زور دیں گے۔‘
دوسری طرف طالبان نے امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے عمل کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ امریکہ نے افغان حکومت کی حمایت میں جن علاقوں میں جنگ نہیں ہو رہی وہاں مسلسل بمباری کی ہے اور حملے کیے ہیں۔
طالبان نے امریکی پائلٹس پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انہوں نے گذشتہ دس روز میں عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر بمباری کی ہے۔
طالبان نے کہا ہے کہ ’یہ سب معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جان بوجھ کر طالبان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بڑے حملے کریں۔‘
افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ جب سے امن معاہدہ ہوا ہے طالبان نے حملوں میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
