Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکندریہ لائٹ ہاؤس: دنیا کا ساتواں عجوبہ

مینار کا بالائی حصہ استوانی شکل کا تھا (فوٹو: العربیہ نیٹ)
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس (فنار) دنیا کے 7 قدیم عجائبات عالم  میں سے ایک ہے- یہ بحیرہ روم میں تعمیر کیا جانے والا پہلا لائٹ ہاؤس ہے جسے مغربی دنیا سکندریہ کے ’فاروس فنار‘ کے نام سے جانتی ہے-
العربیہ نیٹ کے مطابق مصر کی عین الشمس یونیورسٹی میں اسلامی آثار قدیمہ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم عبد العال کا کہنا ہے کہ سکندریہ کا لائٹ ہاؤس بحیرہ روم کا پہلا روشن مینار ہے- یہ جہازوں کی رہنمائی کے لیے قائم کیا گیا تھا- سکندریہ لائٹ ہاؤس سے جہازوں کو جہاز رانی کے لیے پُرخطر مقامات کی طرف جانے سے روکا جاتا تھا- یہ 280 قبل مسیح میں قائم کیا گیا تھا- ڈاکٹر عبدالعال بتاتے ہیں کہ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سکندریہ کا لائٹ ہاؤس 130 میٹر اونچا تھا- یہ مشرقی بندرگاہ کے باہر قائم کیا گیا تھا تاکہ سکندریہ آنے والے جہازوں کی رہنمائی کی جا سکے- چوتھی صدی قبل مسیح کے آخر میں سکندریہ شہر کے قیام سے قبل مصری بندرگاہیں دریائے نیل کی شاخوں پر قائم تھیں-
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس بلند و بالا اور دیوہیکل ہونے کی وجہ سے 50 کلو میٹر کے فاصلے سے نظر آجاتا تھا- اس کے بعد ہی بحیرہ روم میں دیگر لائٹ ہاؤس قائم کیے گئے جن میں اٹلی کی بندرگاہ پورٹوس اور سپین کی بندرگاہ لیکورونیا کے لائٹ ہاؤس تعمیر کیے گئے-

سکندریہ کا لائٹ ہاؤس 50 کلو میٹر کے فاصلے سے نظر آجاتا تھا (فوٹو: العربیہ نیٹ)

ڈاکٹر عبدالعال نے مزید بتایا کہ سکندریہ کے لائٹ ہاٖؤس کی تعمیر بطلیموس اول کے عہد میں شروع کی گئی تھی- یہ بطلیموس دوم کے عہد اقتدار میں مکمل ہوا-
سکندریہ کے لائٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام یونانی انجینئر سوسٹراٹوس  نے انجام دیا تھا- بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لائٹ ہاؤس کو فنار کا نام اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ یہ جس جزیرے میں تعمیر کیا گیا تھا اسے ’فاروس‘ کہا جاتا تھا- تلفظ میں تبدیلی کی وجہ سے فنار ہوگیا- اسے قدیم دنیا کے پہلے لائٹ ہاؤس ہونے کا اعزاز حاصل ہے-
سکندریہ کے لائٹ ہاؤس کو قدیم دنیا کے 7 عجائبات میں شمار کرنے کے کئی اسباب ہیں- پہلا سبب تو یہ ہے کہ یہ 130 میٹر کے لگ بھگ اونچا تھا- جس زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اس وقت اتنی اونچی اور دیو ہیکل تعمیر کہیں نہیں تھی-
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس تین حصوں میں منقسم ہے- اس کا ایک حصہ انتظامیہ اور اصطبل کے لیے خاص ہے- دوسرا حصہ بالکونی کے  طور پر استعمال کیا جاتا تھا جبکہ تیسرا حصہ استوانی شکل کا ہے جہاں رات کے وقت جہازوں کی رہنمائی کے لیے الاؤ جلایا جاتا تھا- علاوہ ازیں بالائی حصے میں دن کے وقت روشنی منعکس کرنے والے آئینے نصب کیے گئے تھے-

یہ جس جزیرے میں تعمیر کیا گیا تھا اسے ’فاروس‘ کہا جاتا تھا (فوٹو: العربیہ نیٹ)

لائٹ ہاؤس کے اوپر یونانیوں کے یہاں سمندر کے دیوتا کا مجسمہ بنایا گیا تھا-
عبد العال نے بتایا کہ لائٹ ہاؤس کے بارے میں مورخین اور سیاحوں نے بہت سارے قصے اور کہانیاں قلمبند کی ہیں- مشہور سیاح المسعودی نے اس کی تصویر کشی کی ہے- ان کی تحریر کے مطابق سکندریہ کا لائٹ ہاؤس تقریباً 230 ہاتھ اونچا تھا-
ابن بطوطہ نے اس کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ وہ مراکش واپس آتے وقت سکندریہ گئے تھے- اس وقت یہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا تھا- اس پر چڑھنا ممکن نہیں تھا-

سکندریہ کا مینار کیوں تعمیر کیا گیا؟

سکندر اعظم نے سکندریہ شہر 332 قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اسے بحیرہ روم کی مرکزی بندرگاہ کا رتبہ حاصل ہوگیا تھا۔ بندرگاہ کی بدولت شہر خوب پھلا پھولا اور جلد ہی قدیم دنیا کا اہم شہر بن گیا۔ اس نے اپنی لائبریری کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں بڑا نام کمایا۔ یہ لائبریری دنیا کے ہرعلاقے میں رائج علوم و فنون کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی۔
دنیا بھر کے لوگ سیر و سیاحت کے لیے سکندریہ شہر آنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی رکاوٹ سکندریہ بندرگاہ کے قریب گدلا پانی اور زیرآب چٹانیں تھیں۔ بطلیموس اول نے اس پر قابو پانے کے لیے مینار تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
سکندریہ کا روشن مینار 40 برس میں مکمل ہوا۔ یہ 250 قبل مسیح میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔

قدیم دنیا کی فقید المثال عمارت

سکندریہ کے مینار سے متعلق اب بہت ساری معلومات ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ البتہ یہ سوال ابھی باقی ہے کہ یہ مینار کیسا نظر آتا تھا۔ اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تاریخ و جغرافیہ کی کتابوں اور سیاحت ناموں کے مطالعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ مینار قدیم سکندریہ کی علامت بن گیا تھا۔ اس کی تصویر قدیم کرنسی سمیت مختلف اشیا اور مقامات پر ملتی ہے۔
سکندریہ کا مینار کم سے کم 450 فٹ اونچا تھا اور اس کا ڈھانچہ دیوہیکل اور خوش منظر تھا۔ یہ سکندریہ بندرگاہ کے گیٹ کے قریب جزیرہ فاروس کے مشرق میں بنایا گیا تھا۔
مینار کا زیریں حصہ چوکورتھا جس میں سرکاری دفاتر کے ساتھ ساتھ اصطبل بھی تھے۔ مینارمیں کارکنان اور اہل خانہ کے لیے زیریں منزل میں 300 کمرے بنائے گئے تھے۔ دوسری منزل 8 کونوں والی تھی جس میں بالکونی بھی بنائی گئی تھی، جہاں سے سیاح قدرتی مناظرکا لطف اٹھاتے اور نشاط انگیز مشروب پیا کرتے تھے۔
مینار کا بالائی حصہ استوانی شکل کا تھا۔ مینار میں 180 فٹ کی بلندی پر ہمہ وقت آگ جلتی رہتی تھی۔ اوپر والے حصے میں سمندر کے دیوتا ’بوسیڈن‘ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔
سکندریہ کے دیوہیکل مینار کے اندر ڈھلوانی شکل کا عجیب و غریب زینہ بنایا گیا تھا، جہاں سے گھوڑوں کے ذریعے مینار کی بالائی منزلوں تک ضرورت کا سامان پہنچایا جاتا تھا۔
ابھی تک یہ راز دریافت نہیں ہوسکا کہ مینار کے اوپر آگ جلانے کے لیے کیا طریقہ کاراستعمال کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آگ کی روشنی بڑے بڑے شیشوں سے منعکس ہو کر 50 کلومیٹر تک پھیل جاتی تھی اور سمندری جہازوں کو راستہ دکھایا کرتی تھی۔ اس کی روشنی تیز ہوتی۔ اس کی بدولت ملاح میلوں دور سے اپنا راستہ تلاش کر لیتے تھے۔

زلزلوں نے عجوبہ روزگار مینارہ زمین بوس کر دیا

سکندریہ کا روشن مینار ریکارڈ مدت تک قائم رہا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ 40 منزلوں پر مشتمل انتہائی بلند مینار تھا اوراس کی عمارت شگاف والی تھی۔ سکندریہ کے روشن مینار نے یونانی، رومانی اور مصر کے اسلامی اقتدار میں آ جانے کے بعد اسلامی عرب شہنشائیت کا زمانہ دیکھا۔ اس کی اہمیت اس وقت ماند پڑگئی جب مصر کا دارالحکومت سکندریہ سے قاہرہ منتقل ہوا۔
فرانس کے ماہر آثار قدیمہ ’جان ایف امبرور‘ نے 1994 میں سکندریہ بندرگاہ کے علاقے میں تحقیقاتی کام کے دوران مینار کے کچھ پتھر سمندر کی تہہ سے دریافت کیے تھے۔ 
سکندریہ قدیم دنیا کا اہم شہر رہا ہے یہاں ملاح اور تاجر کثیر تعداد میں آتے جاتے رہتے تھے۔ متعدد مؤرخین، جغرافیہ نویسوں اور سیاحوں نے اپنی تصانیف میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس کئی بار زلزلوں سے دوچار ہوا البتہ 1330 عیسوی کے دوران مصر میں آنے والے مشہور زلزلے نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا-
سکندریہ کے لائٹ ہاؤس کی اصلاح و مرمت بھی کئی بار کی گئی- 1304 عیسوی میں امیر رکن الدین بیبرس نے کرائی-  
سکندریہ کے مینار کی جگہ قایتبائی کا قلعہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مینار کے کچھ پتھر قلعے کی تعمیر میں استعمال ہوئے جبکہ دیگر سمندر کا حصہ بن گئے۔
قدیم بندرگاہ مشرقی بندرگاہ اور قلعہ قائیتبائی کے اطراف سمندر میں غرق آثار قدیمہ کی تلاش و جستجو کی کئی کوششیں کی گئیں- ماہر آثار قدیمہ نے سکندریہ کے قدیم لائٹ ہاؤس کے بہت سارے حصے دریافت کرلیے-
 ماہرین نے مطالعے کے تناظر میں لائٹ ہاؤس کا جامع تصور ترتیب دیا- اس بات کا بھی پتا لگایا کہ اس کی تعمیر میں کیسے پتھر استعمال کیے گئے تھے-  اسے عصر حاضر کے اہم ترین تاریخی انکشافات میں شمار کیا جا رہا ہے-
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: