Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

العلا کے صحرا میں نئے اور اچھوتے شاہکار

سعودی فنکاروں نے حال ہی میں چھ اچھوتے شاہکار تخلیق کرکے  العلا کے صحرا کا منظر نامہ تبدیل کردیا۔
اخبار 24 کے مطابق نوجوان فنکاروں نے تخلیقات کا تصور العلا کے قدرتی مناظر، تاریخی ورثے سے اخذ کیا۔ اسے ماضی کی یادوں کو مستقبل سے جوڑ کر جدید و قدیم کا حسین سنگم بن ادیا۔
ماضی کی چمک
سعودی فنکارہ زہرہ الغامدی نے اس عنوان سے اپنا شاہکار پیش کیا ہے۔ یہ کھجوروں کے 6 ہزار کنستروں کا مجموعہ ہے۔ کنستر مختلف سائز کے ہیں۔ ریت اور آئینے سے پانچ رنگوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ روشن دریا کی شکل میں 80 میٹر کے فاصلے پر کنستروں سے شاہکار تخلیق کیا گیا۔

یہ فن پارے اپنے اندر ایک وسیع خیال رکھتے ہیں- فوٹو اخبار 24

مختصر راہداری
قدیم زمانے میں العلا تجارتی شاہراہوں کی اہم منزل ہوا کرتا تھا۔ اسے دنیا کے مختلف علاقوں کے درمیان سامان تجارت کے لین دین کے حوالے سے تاریخی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔
سعودی فنکار راشد الشعشعی نے ’مختصر راہداری‘ کے عنوان سے تیار کی جانے والی اپنی تخلیق کے ذریعے قدیم زمانے میں العلا کی تاریخی حیثیت اجاگر کی ہے۔ انہوں نے پلاسٹک کے کارگو پیکٹ کو اس انداز سے ترتیب دیا ہے جس سے العلا فکری و ثقافتی تبادلے اور علوم و معارف کے عظیم مینارے اور جدید خوبصورت قلعے کی شکل میں نظر آتا ہے۔

شائقین اس قسم کے فن میں بے حد دلچسپی لے رہے ہیں- فوٹو اخبار 24

سراپ مجسمہ
سعودی فنکار آل سید نے اس شاہکار کے ذریعے العلا کی جغرافیائی حیثیت اور زندگی کی شہ رگ کے  طور پر تجارتی شاہراہوں کو معروف شاعر جمیل بثینۃ شاعر کے قصیدے سے لیے گئے اشعار کے حروف سے جمع کر۔ کے تخلیق کیا ہے۔
’اے دیکھنے والے کیا تم مجھے دیکھ رہے ہو‘
العلا کے صحرا میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے تالاب نما شکلیں بن جاتی ہیں۔ سعودی فنکارہ منال الضویان نے ’ٹریمبولین‘ کی نسیجوں سے اس کی منظر کشی اپنے انداز سے کی ہے۔ منال نے رات کے وقت کام کے حسن کواجاگر کرنے والی روشنی کی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا ہے۔ فنکارہ نے چشم تصور سے یہ  خیال پیش کیا ہے کہ العلا کے صحرا میں نظر آنے والے تالاب ہر سیاح آمد پر دریافت کرتے ہیں کہ اے دیکھنے والے کیا تم مجھے دیکھ رہے ہو۔

 فنکار نے اپنی تخلیق کا تصور پیش کیا ہے- فوٹو اخبار 24

اما قبل راہداری
یہ شاہکار فن کار ناصر السالم کا ہے۔ انہوں نے تہذیب و تمدن اور تشخص کے درمیان زمان و مکان کو جوڑنے والی راہداری تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے- وہ  چاہتے ہیں کہ ماضی کو مستقبل سے جوڑ کر دکھایا جائے۔ فنکار نے اپنی تخلیق کا تصور عرب معاشرے کے معروف جملے ’اما قبل‘ (اس سے پہلے) سے اخذ کیا ہے۔ اس کے بالمقابل عرب معاشرے میں دوسرا جملہ ’اما بعد‘ آتا ہے- جس کے معنی (اب اس کے بعد) کیا کے آتے ہیں۔

اس تخلیق کو نسل در نسل بیان کیے جانے والے قصوں سے اخذ کیا گیا ہے- فوٹو اخبار 24

’خلخال علیا‘
یہ شاہکار فنکارہ شیریں جرجس کا ہے۔ انہوں نے اپنی اس تخلیق کے ذریعے نسل در نسل بیان کیے جانے والے قصوں اور داستانوں سے اخذ کیا ہے- شیریں نے  خلخال کا تصور اپنی والدہ سے لیا- انہوں نے اپنی اس تخلیق کو شاعر خاتون علیا العتیبی کے قصیدے سے  سجایا ہے۔

 

خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: