Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیروت: ’یہ بالکل ایٹمی دھماکے کی طرح تھا‘

ان دھماکوں میں 135 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار زخمی ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
بیروت میں ہونے والے یکے بعد دیگرے دو تباہ کن دھماکوں کے بعد لبنان کے وزیر اعظم نے بین الاقوامی دنیا سے مدد کی درخواست کی ہے۔
متذکرہ دھماکوں نے پورے ملک کو ایک شدید بحران سے دو چار کر دیا ہے۔
ان دھماکوں میں جہاں 135 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار زخمی ہوئے وہیں دارالحکومت بھر میں عمارتیں یا تو تباہ ہو گئی ہیں یا پھر شدید متاثر ہوئی ہیں۔
ابھی تک دھماکوں کی وجہ غیرواضح ہے، لبنانی رہنما حسن دیاب نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اس کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔
ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’جو کچھ آج ہوا یہ بغیر احتساب کے نہیں گزرے گا، اس تباہی کے ذمہ داروں کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔‘
ملک پہلے سے ہی معاشی مسائل کا شکار ہے اور کورونا وائرس کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔
دیاب نے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے۔ ’میں آج تمام ممالک سے درخواست کرتا ہوں، جو ہمارے دوست، بھائی ہیں اور لبنان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ زخم مندمل کرنے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔‘
دھماکے شہر کی بندرگاہ پر تقریباً شام کو چھ بجے ہوئے۔
لبنان کے چیف برائے اندرونی سکیورٹی عباس ابراہیم کا کہنا ہے کہ دھماکے بندرگاہ کے اس حصے میں ہوئے جہاں برسوں سے آتش گیر مادہ سٹور کیا گیا تھا۔
دیاب نے کہا ’یہ خطرناک ویئرہاؤس یہاں پر دو ہزار چودہ سے قائم تھا‘
ایسا شہر جو تصادم کے حوالے سے ایک تاریخ رکھتا ہے اس کے باوجود یہاں دھماکوں کی شرح مثالی تھی۔

دھماکوں کو دو سو کلومیٹر دور واقع سائپرس میں بھی ان کو محسوس کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

دھماکے اس قدر شدید تھے کہ دو سو کلومیٹر دور واقع سائپرس میں بھی ان کو محسوس کیا گیا۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے ایک چھوٹا دھماکہ ہوا اور آگ لگی اس کے بعد ایسا زور دار دھماکہ ہوا کہ جس نے شہر کو ہلا کر رکھ دیا اور عمارتیں زمین بوس ہوئیں، اس کے بعد چیختے لوگ جان بچانے کی کوشش میں ادھر ادھر بھاگتے نظر آتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کو ایسا لگا جیسے بہت زور کا زلزلہ آ گیا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
سعودی عرب کی وزارت خارجہ امور کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’مملکت دھماکوں کا شکار ہونے اور زخمیوں کے خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔‘
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے ردعمل میں کہا کہ ’ہم لبنان کی مدد کرنے لیے تیار ہیں تاکہ وہ سانحے کے اثرات سے نکل سکے۔‘
فرانس کے صدر ایمونوویل میکخواں نے عربی میں ٹویٹ کے ذریعے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں لبنان سے برادرانہ اظہار یکجہتی کرتا ہوں، فرانس ہمیشہ لبنان کے ساتھ رہا ہے۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’امریکہ لبنان کی مدد کے لیے تیار ہے۔‘
ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے کہا کہ ’ہماری دعائیں لبنانی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ ہیں‘

شہر بھر کی عمارتیں بری طرح متاثر ہوئیں (فوٹو: اے ایف پی)

مصری صدر ابدل فتاح السیسی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے لبنانی بھائیوں کے ساتھ تعزیت کرتا ہوں، ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔‘
اسرائیلی صدر ریوون ریولین نے ان الفاظ میں ردعمل دیا ’ہم لبنانیوں کے دکھ میں شریک ہیں امداد کی پیشکش کرتے ہیں‘
’وہ بالکل ایٹمی دھماکے کی طرح تھا‘
43 سالہ سکول ٹیچر ولید عبدو نے اے پی کو بتایا کہ جب امدادی ٹیمیں دھماکے کے بعد پہنچیں تو خون میں لتھڑے لوگ شہر کی گلیوں میں پڑے تھے۔
ملک بھر سے ایمبولینسز دارالحکومت کی جانب بھاگیں تاکہ زخمیوں کو بچایا جا سکے۔
شہر بھر کی عمارتیں بری طرح متاثر ہوئیں، کچھ کی چھتیں گر گئیں اور کچھ کی کھڑکیاں اڑ گئیں۔
شام کے وقت بڑی تعداد میں زخمی ہسپتالوں میں پہنچائے گئے رش کی وجہ سے میڈیکل سٹاف کو بعض مریضوں کو فرش پر طبی امداد دینا پڑی۔
وزیر صحت حسن حماد نے اس صورت حال پر کہا کہ ہسپتال بمشکل ہی اس کا مقابلہ کر رہے ہیں اور عرب ریاستوں اور لبنان کے دوستوں کی جانب سے امداد کی پیشکش آ رہی ہیں۔
لبنان ریڈ کراس کے افسر جارجز کیٹینے کی جانب سے کہا گیا کہ زخمیوں کو دارالحکومت سے باہر دوسرے ہسپتالوں میں لے جایا رہا ہے کیونکہ وہاں گنجائش نہیں رہی۔

بیروت کے وزیر اعظم دیاب نے بدھ کو سوگ کا اعلان کیا (فوٹو: اے ایف پی)

دھماکوں کے وجہ کے حوالے پھیلنے والی افواہوں پر ایک اسرائیلی افسر نے کہا کہ ان کے ملک، جس نے لبنان سے لڑائیاں لڑیں، کا ان دھماکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ دھماکے یو این ٹربیونل کے اس فیصلے سے چند روز قبل ہوئے ہیں جو ان چار ملزموں کے بارے میں ہے جن پر سابق وزیر اعظم رفیق حریری اور 2005 میں دھماکے میں دوسرے 21 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے جس نے پورے علاقے کو ہلا دیا تھا۔
’ملزم حزب اللہ کے رکن ہیں، جو ایرانی پشت پناہی رکھنے والا ایک عسکری گروپ ہے، ملکی حکومت اور خطے میں تصادم میں اس کا عمل دخل رہا۔‘
رفیق کے بیٹے سعد، جو خود بھی سابق وزیر اعظم ہیں، نے دھماکوں کے بعد کہا دھماکوں نے بیروت کو روتا چھوڑ دیا ہے۔
’ہر ایک سے کہا جا رہا ہے کہ بچاؤ کے لیے نکلے اور ہمارے لوگوں سے اظہار یکجہتی کرے، نقصان کا حجم بیان سے باہر ہے۔‘
وزیر اعظم دیاب نے بدھ کو سوگ کا اعلان کیا جبکہ صدر عون مشیل نے سپریم ایمرجنسی کونسل کا اجلاس بلایا جس نے بیروت کو بحران زدہ شہر قرار دیا۔
ملک بھر اور دوسرے ممالک میں مقیم لبنانی اس سانحے پرشدید غم سے دو چار ہوئے اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطوں کی کوشش کرتے رہے۔
لبنانی موسیقار جید چوئیری کی جانب سے کہا گیا کہ اس کے گھر کے قریب ایسے مناظر ہیں جیسے قیامت گزر گئی ہو۔

دھماکوں سے پورا شہر لرز کر رہ گیا اور لوگ گلیوں میں نکل آئے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اپنے اپارٹمنٹ سے لی گئی تصویر پوسٹ کی، انہوں نے لکھا کہ ’ہر طرف خون بکھرا ہوا ہے، میں بھی اس میں مر سکتا تھا۔‘
لبنانی صحافی ریما مکتبی اشکبار آنکھوں سے گھر کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں العربیہ چینل کو بتایا جہاں وہ کام کرتی ہیں’میرا خیال میں میرا گھر چلا گیا ہے۔‘
پیسٹری شیف راجہ فراح نے بتایا کہ وہ دھماکے کے مقام سے صرف آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔
’دھماکے کی شدت کو بیان نہیں کیا جا سکتا، یہ پانچ سال قبل ہونے والے دھماکے جس میں رفیق حریری نشانہ بنے سے سو گنا زیادہ شدید تھا۔‘
دھماکوں سے پورا شہر لرز کر رہ گیا جس کے بعد مختلف علاقوں میں کام کرنے والے افراد گلیوں میں نکل آئے۔
ڈیلی سٹار اخبار کے دفتر کے اندر سے بنی ویڈیو تباہی کے مناظر دکھاتی ہے، کمیپوٹر فرش پر بکھر جاتے ہیں اور چھت گر پڑتی ہے۔
شہر کے مشہور ہوٹلوں دی فور سیزن اور دی انٹرکانٹیننٹل کے دالانوں میں شیشے بکھرے پڑے تھے۔
فائر بریگیڈ عملے کی آگ پر قابو پانے کی کوششیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کی سپورٹ لبنانی عوام کے ساتھ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بیروت کے گورنر مروان ابود نے جائے دھماکے کا دورہ کیا اشکبار آنکھوں کے ساتھ کہا کہ ’بیروت ایک تباہ حال شہر ہے۔‘
سانحے سے ہونے والی تباہی کے بارے میں معلومات واضح ہونے کے بعد عرب دنیا اور دیگر ممالک نے امداد کی پیشکش کی ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مملکت کی سپورٹ اور یکجہتی لبنانی عوام کے ساتھ ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے کہا کہ ’ہم دعا کرتے ہیں  کہ خدا آپ کو صبر دے، اللہ لبنان اور لبنانی عوام پر رحمت کرے۔‘
کم و بیش اسی قسم کی امداد کی پیشکش دیگر ممالک بحرین، کویت، مصر، اور اردن کی جانب سے بھی کی گئی ہے، اسرائیل جو اس وقت بھی تکنیکی لحاظ سے لبنان سے حالت جنگ میں ہے، کی جانب سے طبی امداد کی پیش کی گئی ہے۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب عزم ظاہرکیا گیا ہے کہ وہ تمام ممکنہ امداد کے لیے تیار ہے۔
اسی طرح فرانسیسی صدر ایمونوویل میکخواں نے عون کو فون کر کے بتایا کہ فرانس کی طرف سے لبنان کے لیے امداد روانہ کی جا چکی ہے۔

شیئر: