Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'بیروت میں دھماکے کیا ایک حادثہ تھے؟'

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایٹمی دھماکہ ہوتا تو لوگوں کی جلد جل جاتی (فوٹو: اے ایف پی)
عرب نیوز کے ٹوئٹر پر ایک پول کے مطابق تین چوتھائی ٹوئٹر صارفین منگل کو بیروت میں ہونے والے دھماکوں کو محض حادثہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگاہ کے ویئر ہاؤس میں امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں دھماکوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں بیروت شہر میں اتنی شدید لہریں پیدا ہوئیں جس سے بندرگاہ کے قریب بے شمار عمارتیں زمین بوس ہو گئیں جبکہ حکام کی جانب سے 135 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
ان دھماکوں کی شدت لبنان سے 200 کلومیٹر دور واقع قبرص میں بھی محسوس کی گئی۔  
 ٹوئٹر پول میں ایک ہزار سے زائد صارفین نے حصہ لیا جن میں سے 73 فیصد یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ یہ صرف ایک حادثہ تھے، جبکہ 27 فیصد ٹوئٹر صارفین سمجھتے ہیں کہ یہ خوفناک دھماکے بندرگاہ پر چھ برس سے غیر محفوظ طریقے سے ذخیرہ شدہ امونیم نائٹریٹ میں آگ لگنے سے ہوئے۔
بیروت میں ہونے والے ان دھماکوں کے نتیجے میں شہر پر دھوئیں کے سیاہ بادل نمودار ہوئے جس کے بعد سوشل میڈیا پر افواہیں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور خوف پھیل گیا۔
سازشی مفروضے پیش کرنے والوں نے کہا کہ اس دھماکے کی شدت سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لبنان کے دارالحکومت کو ایٹم بم کے حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندگارہ میں امونیم نائٹریٹ کے جس ذخیرے میں دھماکے ہوئے اس میں 2 ہزار 750 ٹن دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔

دھماکوں کی شدت 200 کلومیٹر دور قبرص میں بھی محسوس کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

امونیم نائٹریٹ زراعت کے لیے کھاد میں استعمال ہونے والا سفید کیمیائی مادہ ہے اور اگر اسے باقاعدہ طور پر ذخیرہ کیا جائے تو پھر یہ قدرے محفوظ ہوتا ہے، تاہم اگر یہ دیگر کیمیکلز یا تیل کے ایندھن کے ساتھ مل جائے تو پھر یہ مہلک اور دھماکہ خیز بن جاتا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے بڑے دھماکوں کا مشاہدہ نہیں کیا وہ ان دھماکوں کے نتیجے میں بننے والے سیاہ بادلوں کو ایٹم بم کے دُھوئیں کے ساتھ ملا  رہے ہیں۔
دیگر کا خیال ہے کہ بیروت دھماکوں میں ایٹمی دھماکے کی دو نشانیاں موجود نہیں تھیں، ایک تو آنکھوں کو چُندھیا دینے والی تیز سفید روشنی اور دوسرا ان دھماکوں سے گرمی کی حِدت میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔
اگر ان دھماکوں سے گرمی کی حِدت میں اضافہ ہوتا تو اس سارے علاقے میں آگ لگنا شروع ہو جاتی جس سے لوگوں کی جلد جل جاتی۔

شیئر: