Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد

نفرت انگیز مواد کے حوالے سے پنجاب کے 10 شہروں کا انڈیکس تیار کیا گیا ہے (فوٹو: پکسا بے)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے بڑے شہروں میں حکومت نے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شائع ہونے سے متعلق تحقیقات کی ہیں۔ تمام اضلاع سے متعلق رپورٹس مقامی سطح پر تیار کی گئی ہیں۔
اردو نیوز کو حاصل دستاویزات کے مطابق پنجاب کا شہر راولپنڈی نفرت انگیز مواد پھیلانے میں درجہ اول پر ہے۔ تمام اضلاع کی کئی ماہ مانیٹرنگ کے بعد 10 شہروں کا انڈیکس تیار کیا گیا ہے جہاں سے نفرت انگیز مواد سب سے زیادہ پھیلایا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق راولپنڈی پہلے، فیصل آباد دوسرے، سرگودھا تیسرے، ڈی جی خان چوتھے، گوجرانوالہ پانچویں جبکہ ساہیوال چھٹے نمبر پر ہے۔

 

اسی طرح ملتان کا ساتواں نمبر، بہاول پور کا آٹھواں، شیخوپورہ کا نواں اور لاہور کا دسواں نمبر ہے۔
اس رپورٹ کو تیار کرنے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی خدمات بھی لی گئی ہیں جبکہ پنجاب حکومت کے سائبر کرائم ونگ نے بھی اس رپورٹ کی تیاری میں مدد دی ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب مومن علی آغا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’رپورٹ کا بنیادی مقصد حساس موضوعات پر شیئر کیے جانے والے مواد کے بارے میں حقائق کی چھان بین کرنا ہے۔ اور ایسے مواد کو انڈیکس کرنے سے متعلق ہے جو ملکی قوانین کے مطابق جرم ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق ان تحقیقات کے ذریعے مذہبی فرقہ واریت، سیاست سے متعلق نفرت انگیز مواد اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ کے ذرائع معلوم کرنا تھا۔ اور ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پیجز کا سراغ لگانا بھی تھا جو نفرت انگیز مواد کی تعریف کے زمرے میں آتے ہیں۔
تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نفرت انگیز مواد کی انڈیکسنگ کے بعد کوئی قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے گی یا نہیں۔ کیونکہ اس رپورٹ میں عام شہریوں کے اکاؤنٹس کو بھی مانیٹر کیا گیا ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ مواد کا پھیلاؤ کافی عرصے سے زیربحث ہے۔ (فوٹو: پکسا بے)

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر منعم بشیر چوہدری جو سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کے ماہر ہیں، نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس طرح کی رپورٹس عوامی رجحانات جانچنے کے لیے ہوتی ہیں اور انہی رپورٹس کی روشنی میں ادارے اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر نئے مقدمے نہیں بنائے جاسکتے البتہ نئے مقدموں کی تیاری میں اس سے مدد لی جا سکتی ہے۔‘
منعم چوہدری کے مطابق یہ رپورٹس اس سے پہلے بھی تیار کی جاتی رہی ہیں، البتہ اب فرق یہ ہے کہ نئے سائبر قوانین کے تحت نفرت انگیز مواد کی تعریف مزید موثر کر دی گئی ہے جس میں اب ادارے اور سیاسی نفرت انگیز مواد کو بھی شامل کیا گیا ہے اس لیے بھی یہ رپورٹ اہم ہے کیونکہ یہ آئندہ کی پالیسی میں مدد دے گی۔
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں اس پر محتاط تبصرہ ہی کروں گا کیونکہ حکومت جو کور استعمال کر رہی ہے وہ بظاہر فرقہ واریت سے متعلق مواد ہے لیکن قابل نفرت مواد کی تشریح کو بہت بڑھا دیا گیا ہے۔ اب اگر عوام اپنی حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار کریں تو کیا ہم اس کو بھی اسی زمرے میں ڈالیں گے؟‘

شہزاد احمد کے مطابق ایسی رپورٹس کو عوامی طور پر پیش کیا جائے (فوٹو: پکسا بے)

شہزاد احمد کے مطابق اس طرح کے حکومتی اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حکومت کی نیت کا پتا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر کسی بھی بات سے فوری کسی کی جان کو خطرہ ہو تو ایسی سوشل میڈیا پوسٹس کی چھان بین ضروری ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بھیس کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کے پاس اور کئی ہتھیار آ جاتے ہیں۔ ’اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک تو اس طرح کے معاملات کو شفاف بنائے اور ایسی رپورٹس کو عوامی طور پر پیش کیا جائے، یا کسی خود مختار ادارے سے ایسی تحقیقات کروائی جائیں جو عوامی حقوق کی ضامن بھی ہوں۔'

شیئر: