Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یورپ کو ترکی کے خلاف متحد ہونا چاہیے‘

فرانسیسی صدر کے مطابق ترکی بحیرہ روم اور لیبیا میں اپنی پالیسیز کی وجہ سے اب یورپ کا حلیف نہیں رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں نے جمعرات کو یورپی اقوام پر زور دیا کہ وہ ترکی کے حوالے سے ایک متحد اور واضح پالیسی اپنائے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق  ایمینوئل میکخواں نے کہا کہ ترکی بحیرہ روم اور لیبیا میں اپنی پالیسیز کی وجہ سے اب یورپ کا حلیف نہیں رہا۔
میکخواں نے بحیرہ روم کے یورپی ریاستوں کے سربراہان کے اجلاس سے قبل صحافیوں کے گفتگو میں کہا ’یورپین کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ’ناقابل قبول‘ رویے کے حوالےسے  واضح اور سخت موقف اپنانا چاہیے۔‘
 
فرانسیسی صدر نے کہا کہ ’ہم یورپی ممالک کو ترک صدر کے بارے میں صاف اور ٹھوس موقف اپنانے کی ضرورت ہے، جو ان دنوں ناقابل قبول رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ترکی اپنے اس رویے کی وجہ سے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں ’شراکت دار‘ نہیں ہے۔ اگرچہ انہوں نے ترکی کے ساتھ ’نتیجہ خیز مذاکرات‘ کی امید ظاہر کی۔
فرانسیسی صدر کے دفتر کے ایک اہلکار نے کہا کہ ’ایمینوئل میکخواں 24-25 ستمبر کو ہونے والے یورپی ممالک کے سمٹ میں یورپی ممالک کے ترکی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اتفاق رائے میں پیش رفت کریں گے۔‘
خیال رہے حالی ہی میں فرانس کے وزیر خارجہ ژاں یوز لا ڈریاں نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو خبردار کیا تھا کہ ترکی کو یونان اور قبرص کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعے کی وجہ سے یورپی یونین کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ تنازع رواں ماہ یورپی کونسل کے اجلاس کے دوران ایجنڈے پر سرفہرست ہوگا۔‘ 
ترکی نے گذشتہ ماہ یونان کے بحییرہ روم کے اس حصے میں زیرِ زمین تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے لیے ایک تحقیقی جہاز اور اس کے ساتھ نیوی کا بھی ایک جہاز روانہ کیا تھا جس پر یونان ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ نے ترک صدر پر زور دیا تھا کہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں اپنے عزائم پر مذاکرات شروع کریں اور حوالے سے یورپی کونسل کا اجلاس 24 ستمبر کو بلا لیا گیا ہے۔
'اب یہ ترکوں پر منحصر ہے کہ وہ دکھائیں کہ اس معاملے پر۔۔۔ بات چیت ہو سکتی ہے۔' انہوں نے کہا تھا کہ 'اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم مذاکرات کی میز پر تمام مسائل پر گفتگو کر سکتے ہیں۔'

شیئر: