Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ قبرص پر لگی پابندیاں کیوں ہٹانا چاہتا ہے؟

یونان اور ترکی دونوں ہی بحیرہ روم کے مشرقی حصے میں توانائی کے لیے وسیع تحقیق کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی جانب سے منگل کو کیے جانے والے اعلان کہ ’قبرص پر سے 1987 میں لگی ہتھیاروں کی پابندی جزوی طور پر ہٹائی جا رہی ہے‘ کے بعد سے مشرقی بحیرہ روم میں چلنے والے تنازعات میں ایک نیا عنصر سامنے آیا ہے۔  
واشنگٹن کے مقاصد کے بارے میں ماہرین منقسم ہیں کہ آیا یہ فیصلہ انقرہ کی چالوں سے منسلک ہے جہاں وہ متنازع پانیوں میں گیس کے لیے کھدائی کر رہا ہے۔
امریکہ کے اس فیصلے پر بدھ کو ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے شدید تنقید کی گئی جس سے قبرص کو ایک سال کے لیے غیر مہلک ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے گرین سگنل دیا گیا ہے۔
ترکی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر واشنگٹن نے اس فیصلے پر نظر ثانی نہ کی تو یک طرفہ طور پر کارروائی کی جائے گی۔
انقرہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس امریکی اقدام سے یونانی رہنماؤں کی ترک قبرص کے ساتھ دوبارہ اتحاد کے لیے ہونے والے طویل المدتی مذاکرات کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔
فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں مشرق وسطٰی کے پروگرام ڈائریکٹر ایرون سٹین کے نزدیک یہ امریکی فیصلہ ترکی کے بجائے روس سے متعلق ہے۔ 
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’یہ امریکہ کی سوچ ہے جو اسے اس کوشش پر ابھار رہی ہے کہ وہ جزیرے پر روس کے اثر و رسوخ کو پیچھے دھکیلے۔‘
مشرقی بحیرہ روم سکیورٹی اینڈ انرجی پارٹنرشپ ایکٹ 2019 کے تحت واشنگٹن نے یونان اور قبرص کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے اور دفاعی مدد مہیا کی تاکہ روسی فوج کے قبرص کے لیماسول پورٹ سے ایندھن لینے کے عمل کو روکا جائے۔
سٹین کے مطابق ترکی بہت زیادہ غیرمقبول ہے اور یو ایس کانگریس کی ایسی کوششوں کو روکنے کے لیے اس کے پاس کوئی سپورٹ نہیں ہے۔

ٹرمپ، صدر اردوان کے ساتھ لائن کھلی رکھنا چاہتے تھے (فوٹو: روئٹرز)

’اس لیے امریکی محکمہ خارجہ کے وہ لوگ جو اس لائن کو آگے بڑھا رہے تھے، وہ کامیاب رہے۔‘
اس دوران ہی نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ یونان اور ترکی نے مشرقی بحیرہ روم کے حوالے سے تنازعات سے متعلق لائحہ عمل بنانے اور حادثات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے نیٹو کے زیر انتظام تکنیکی مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔
جو میکارون جو عرب سینٹر میں مشرق وسطٰی کی خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار ہیں، ان کا خیال ہے کہ امریکی انتظامیہ کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں جن کی وجہ سے صدر ٹرمپ پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں ترک پالیسی سے پیچھے ہٹیں۔
’اور یہ دباؤ اب مزید بڑھے گا کیونکہ ترکی نے روس کے ایس 400 طیارہ شکن میزائل سسٹم کا دوسرا بیچ خریدنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔‘
رپورٹس کے مطابق اگست کے آخر میں انقرہ اور ماسکو نے ترکی کو ایئر ڈیفنس سسٹم کی دوسری کھیپ فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے، اس سے وہ نیٹو کا پہلا رکن بن گیا جس نے روس سے یہ سسٹم خریدا ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق امریکی فیصلہ قبرص کو روس سے دور کرنے کے لیے ہے (فوٹو: اے پی)

میکارون نے کہا کہ یہ دباؤ امریکہ کی اس مذمت میں بھی واضح دکھائی دیا جو صدر طیب اردوان کی حماس کے ساتھ ملاقات پر کی گئی تھی اور اب قبرص پر سے جزوی پابندی ختم کرنے سے بھی ظاہر ہے۔
یہ دونوں بیانات امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ناکہ وائٹ ہاؤس سے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ صدر اردوان کے ساتھ لائن کھلی رکھنا چاہتے تھے۔
میکارون نے کہا کہ ’امریکہ مشرقی بحیرہ روم کی کشیدگی کے حوالے سے فرانس کو ساتھ لیے بغیر ہی ترکی سے دوری اپنا رہا ہے کیونکہ یہ فیصلہ ایک سال تک کے لیے کارگر اور صرف غیر فوجی ساز و سامان تک ہی محدود ہے۔‘
یونان اور ترکی دونوں ہی بحیرہ روم کے مشرقی حصے میں توانائی کے لیے وسیع تحقیق کر رہے ہیں، 1974 کے بعد سے منقسم جزیرے کے آس پاس گیس کے ذخائر کی وجہ سے ترکی اور قبرض کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے  قبرص پر ہتھیاروں کی پابندی جزوی طور پر ہٹانے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: روئٹرز)

اوزگر انلسرسکلی، جو امریکہ  کے جرمن مارشل فنڈ کے انقرہ کے ڈائریکٹر ہیں، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکی فیصلہ قبرص کو روس سے دور کرنے کے لیے تھا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’اس فیصلے کے وقت کا تعلق آنے والے امریکی انتخابات کے ساتھ ہو سکتا ہے کیونکہ تقریباً ایک اعشاریہ چار ملین یونانی نژاد امریکیوں کے مقابلے میں تین لاکھ 50 ہزار ترک نژاد ہیں۔‘
بہرحال ینلسارسکلی نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے جزیرے میں فوجی توازن تبدیل نہیں ہو گا تاہم اس کے لیے چنا گیا وقت زیادہ موزوں نہیں ہے۔ اس کو یونانی قبرص کی موجودہ پالیسی کی توثیق خیال کیا جا سکتا ہے اور جزیرے کے وسائل کے استحصال کے حوالے سے ترک قبرص پر بات چیت ختم ہو سکتی ہے۔
اسی اثنا میں برسلز پرامید ہے کہ اسی ماہ کے آخر میں ہونے والی رہنماؤں کی میٹنگ میں ان پابندیوں کی فہرست پر بات کی جائے گی جو ممکنہ طور پر ترکی کے خلاف ہو سکتی ہیں۔

شیئر: