پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہونے والے ریپ کے واقعے کے بعد مقامی میڈیا پر جنسی زیادتی یا جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی رپورٹنگ میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جمعرات 17 ستمبر کو لاہور پولیس نے دو مقدمات میں ایسے ملزمان کو پکڑا ہے جن پر جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ریپ کا الزام ہے۔
مزید پڑھیں
-
’موٹروے واقعے میں ملوث ملزم گرفتار، اعترافِ جرم کر لیا‘Node ID: 504981
-
سرِعام پھانسی کا مطالبہ کیا غیر آئینی؟Node ID: 505396
-
سینیٹ کمیٹی میں عدم پیشی پر سی سی پی او کے سمن جاریNode ID: 505416
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور لاہور شہر کے پولیس چیف عمر شیخ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ 'ایک ایسے نوجوان کو حراست میں لیا گیا ہے جو گذشتہ کئی سال سے ایک نوجوان لڑکی کو ریپ کی دھمکیاں دے رہا تھا۔'
خیال رہے کہ لڑکی نے ملزم کی ایسی کئی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کیں جن میں وہ بھاری اسلحہ لہرا رہا ہے۔
پریس کانفرنس میں لڑکی کے والد بھی موجود تھے، انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ملزم گذشتہ ڈیڑھ سال سے نہ صرف میری بیٹی کو ہراساں کر رہا تھا بلکہ مجھے اور میرے خاندان کو بھی دھمکیاں دیتا تھا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'لاہور میں ہونے والے واقعے کے بعد میری بیٹی نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی تو حکومت حرکت میں آئی اور اب ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے رائیونڈ کے علاقے میں تین ستمبر کو ڈکیتی کے دوران خاتون سے ریپ کرنے والے دو ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔
سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'یہ رائیونڈ کا واقعہ بھی موٹر وے واقعے سے کم سنگین نہیں تھا اس میں بھی ملزمان نے خاتون سے واردات کے دوران ریپ کیا۔ ان ملزمان کو بھی جیو فنسنگ، ڈی این اے اور کال ڈیٹا ریکارڈ کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'پولیس کو ایک سہولت صرف یہ ہوئی کہ اس میں مدعی نے ایک ملزم کو ڈکیتی کے دوران ہی پہچان لیا تھا جس کی بعد میں ڈی این اے تصدیق بھی ہو گئی۔'
اس سوال کے جواب میں کہ کیا صوبے میں ریپ کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے؟ عمر شیخ کا کہنا تھا کہ 'ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوا ہے لیکن موٹر وے کیس کے بعد رپورٹنگ میں ضرور تیزی آئی ہے۔'
