Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمڑی جائے دمڑی نہ جائے

شمالی ہند میں سونے کا سکّہ دینار، مُہر اور اشرفی کہلایا۔ (فوٹو: ان سپلیش)
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں 
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں 
شاعر نے زندگی کو لباسِ مفلس پہنا کر درد کو مجسم کردیا ہے۔ اس درد کا درماں توہمارے پاس نہیں مگر لفظ ’مفلس‘ کی نسبت سے کہنے کو بہت کچھ ہے۔ ’مفلس‘ کے معنی ’غریب، مسکین، محتاج اور فاقہ کش‘ ہیں۔ مفلس کا بنیادی لفظ ’فَلْس‘ ہے۔ عربی میں ’فَلس‘ مچھلی پر موجود چھلکوں کو کہتے ہیں۔ چوں کہ یہ چھلکے کسی قدر سخت اور گول ہوتے ہیں سو اس رعایت سے سکّے کو مجازاً ’فَلس‘ کہا جاتا ہے۔ ’فَلس‘ کی جمع فُلُوس ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی ’فَلس‘ بہت سے عرب ملکوں میں ’کرنسی‘ کی بنیادی اکائی ہے۔ مثلاً ایک کویتی دینار ایک ہزار فَلس کے مساوی ہوتا ہے۔
فَلس سے لفظ ’فَلَّاس‘ اور’اِفلاس‘ بھی ہے۔ ’فَلَّاس‘ سونے چاندنی کے سکّوں کا لین دین کرنے والے کو کہتے ہیں، یوں ’فَلَّاس‘ مالدار کا مفہوم رکھتا ہے۔ جب کہ ’اِفلاس‘ کے معنی میں ’تنگدستی اور مالی محتاجی‘ داخل ہے۔
’فَلَّاس‘ اور’اِفلاس‘ کے درمیان ایک ’الف‘ کا فرق ہے جس نے دونوں کو ایک دوسرے کی ضد بنا دیا ہے۔ خیال تھا کہ ’اِفلاس‘ اور’مفلس‘ کا تعلق مسکین و محتاج  کو خیرات میں ملنے والے فُلُوس (سکوں) سے ہوگا مگر ایسا نہیں ہے۔
ہندی زبان میں کسی لفظ کی ضد یا اُلٹ بنانا ہو تو اُس لفظ سے پہلے ’الف‘ لگا دیتے ہیں مثلاً ’لگ سے الگ’، ’ٹوٹ سے اٹوٹ‘، ’مر سے امر‘ وغیرہ۔ بالکل یہی قاعدہ بعض صورتوں میں عربی زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
عربی میں ضد کے لیے جو الف آتا ہے اُسے ’ہمزۂ سلب‘ کہتے ہیں۔ یہی الف جب ’فَلس‘ سے پہلے لگا تو اُسے ’اَفلس‘ (کنگلا) کردیا، یوں بات ’اَفلس‘ سے ’اِفلاس‘ تک پہنچ گئی۔ اب اِفلاس کی رعایت سے ’مہتاب عالم‘ کا ایک پُر دردشعر ملاحظہ کریں:
کس کو افلاس نے رکھا ہے شگفتہ خاطر
یہ تو بچوں کو بھی چنچل نہیں ہونے دیتا
ابتداء میں مچھلی کا ذکر تھا، جس سے  یاد آیا کہ پنجابی میں مچھلی کے گول ٹکڑوں کو’گَنّی‘ کہتے ہیں۔ اب گول اور گَنّی کو ذہن میں رکھیں اور انگریزی لفظ Guinea (گِنی) پر غور کریں۔ بھلے وقتوں میں ’گِنی‘ سونے کا برطانوی سکّہ تھا، جس کا وزن چوتھائی اونس اور مالیت 20 شیلنگ تھی۔ 

ربی میں ’فَلس‘ مچھلی پر موجود چھلکوں کو کہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اول اول لفظ ’گِنی‘ بمعنی سونے کا سکّہ، سنا تو ذہن فوراً عربی کے ’غنی‘ کی جانب منتقل ہوگیا، جس کے مجازی معنی میں’مالدار، دولت مند اور امیر‘ داخل ہے۔ مگر تحقیق مزید نے اس بات کو خیال خام ثابت کردیا۔ کیوں کہ گِنی (Guinea) کی نسبت مغربی افریقہ کے وسیع خطے کی جانب ہے جو ماضی میں گِنی (Guinea) کہلاتا تھا۔
آج یہ خطہ جن ممالک پر مشتمل ہے ان میں گِنی، گَنی بساؤ اور گھانا وغیرہ شامل ہیں۔ آج کی طرح ماضی میں بھی ’گِنی‘ کا خطہ سونے کی کانوں کی وجہ سے مشہور تھا،چنانچہ اس خطے کی نسبت سے برطانوی سکّے کو’گِنی‘ کا نام دیا گیا۔
سونے کا سب سے قدیم سکّہ ’دینار‘ کہلاتا ہے، بدلتے زمانے نے اس سکّے کو کاغذی نوٹ میں بدل دیا ہے۔ یوں کئی ایک ممالک کی ’کرنسی‘ دینار کہلاتی ہے۔ سید سلیمان ندوی کے مطابق سونے کا سکّہ اور اس کا نام دونوں یونان سے چل کر سرزمین عرب پہنچے پھر وہاں سے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ اس ’دینار‘ کی اصل لاطینی لفظ ’ڈیناریوس‘ ہے۔ 
’دینار‘ ہی کی طرح لفظ ’درہم‘ کا بھی اصل وطن یونان ہے، جہاں یہ چاندی کا سب سے ادنیٰ سکّہ تھا اور ’درخم‘ (Drachma) کہلاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2001 میں یورو(euro) کے چلن سے پہلے تک یونانی کرنسی ’درخم‘ کہلاتی تھی۔ 

سونے کے سکے کا ایک مقبول نام ’اشرفی‘ ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

 یہ ’درخم‘ عربی میں ’درہم‘ ہوا اور انڈیا پہنچ کرپہلے ’دام‘ بنا اور پھر’دمڑی‘ کہلایا۔ پھر ’دمڑی‘ کا اطلاق چاندی کے بجائے تانبے کے کم ترین مالیت کے سکّے پرہونے لگا۔ مشہور محاورہ ’چمڑی جائے دمڑی نہ جائے‘ کنجوس کی کنجوسی کے ساتھ دمڑی کی بے وقعتی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اب درہم و دینار کی رعایت سے دلی کے سید حامد کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:  
پھینک کر خاک میں اقدار کو تحقیر کے ساتھ
زندگی درہم و دینار لیے پھرتی ہے
سونے کے سکے کا ایک مقبول نام ’اشرفی‘ ہے۔ چوں کہ چاندی اور تانبے  کے مقابلے میں سونا ’افضل و اشرف‘ ہوتا ہے، اس لیے گمان تھا کہ ’اشرفی‘ کی نسبت اس کے ’اشرف‘ ہونے کی طرف ہوگی، مگر ایسا نہیں ہے۔ فرہنگ آصفیہ والے سید احمد دہلوی کے مطابق ’اشرفی‘ کی نسبت اشرف نامی بادشاۂ ایران کی طرف ہے، جس نے سونے کا یہ سکّہ متعارف کیا ہے۔
دوسری طرف سید سلیمان ندوی ہیں جو ’اشرفی‘ کی نسبت مصر کے چرکسی بادشاہ کی جانب کرتے ہیں، جس کا لقب ’الملک الاشرف‘ تھا۔ اسی نے سونے کا یہ سکّہ رائج کیا تھا۔

روپیہ پاکستان اور ہندوستان سمیت کئی ملکوں کی کرنسی کا نام ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

اگر شمالی ہند میں سونے کا سکّہ دینار، مُہر اور اشرفی کہلایا تو جنوبی ہند (دکن) میں اس نے ’ہُن‘ نام پایا۔ جنوبی ہند کی ایک اہم زبان ’کنٹری‘ میں سونے کو ’ہون‘ کہتے ہیں، ہون تخفیف کے بعد ’ہُن‘ بن کر برسنے لگا۔ محاورہ ’ہُن برسنا‘ اسی سے متعلق ہے۔
عرب و ایران اور قدیم ہندوستان کے درہم و دینار کے درمیان پاکستان کے ’روپیہ‘ کا ذکر بھی سن لیں۔ روپیہ پاکستان اور انڈیا سمیت کئی ملکوں کی کرنسی کا نام ہے۔ کاغذی نوٹوں سے پہلے روپیہ پیسہ سکّوں کی شکل میں ہوتا تھا۔ سنسکرت میں چاندی کو’روپا‘،’روپیا‘ اور’روپیکا‘ کہتے ہیں، چنانچہ اس کی نسبت سے چاندی کا سکّہ ’روپیہ‘ کہلایا۔ چاندی کو’روپا‘ کے ’روپ‘ میں دیکھنا ہو تو ابن انشاء کی مشہور نظم کا درج ذیل بند ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
کیا جھگڑا سود خسارے کا 
یہ کاج نہیں بنجارے کا 
سب سونا ’روپا‘ لے جائے 
سب دنیا، دنیا لے جائے 
تم ایک مجھے بہتیری ہو 
اک بار کہو تم میری ہو

شیئر:

متعلقہ خبریں