Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رشکے دا پخپلے، داگیتی دا پھاوڑے‘

بالائی کہنے میں اُس ملائمت اور لطافت کا احساس نہیں ہوتا جو ملائی سے وابستہ ہے. (فوٹو: ٹوئٹر)
سعادت حسن منٹو کی مقبولیت میں اُس مقدمہ بازی کا بھی دخل تھا جس کا سامنا انہیں ’فحش نویسی‘ کے الزام میں کرنا پڑا۔ بعض نقاد انہیں اردو افسانے کی آبرو بتاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ خود اُن کے کردار ہر دوسرے افسانے میں بے آبرو نظرآتے ہیں۔
انصاری صاحب کہتے ہیں مقدمہ بازی اور جُگت بازی مل کر بھی ’منٹو‘ کی اہمیت نہیں گھٹا سکے۔ یہ عظمت کا اعتراف ہی تھا کہ لاہور کا مشہور پارک منٹو سے منسوب کیا گیا۔
کون سا پارک ؟ ۔۔۔ ہم چونکے۔ منٹو پارک لاہور‘ ۔۔۔ انہوں نے ترنت جواب دیا۔
منٹو پارک‘ کو لارڈ منٹو (Lord Minto) سے نسبت تھی، سعادت حسن منٹو سے نہیں؟ ہم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
معصومیت سے بولے: توکیا سعادت حسن منٹو کو پیار سے ’لارڈ منٹو‘ نہیں کہتے؟
بالکل نہیں کہتے، لارڈ منٹو ہندوستان کے نویں گورنرجنرل تھے جو سعادت حسن منٹو کی پیدائش سے برسوں پہلے گزرے ہیں۔
پینترا بدل کربولے: ممکن ہے گورنر جنرل لارڈ منٹو، سعادت حسن منٹو کے بزرگوں میں سے ہوں، آخر کو دونوں ’منٹو‘ تھے۔
بھائی لارڈ منٹو انگریز تھا اور سعادت حسن منٹو کشمیری پنڈت، پھر دونوں ’منٹو‘ میں بھی فرق ہے۔ ہم نے زچ ہوکر کہا۔
وہ کیا؟
وہ یہ کہ انگریزی والا ’منٹو‘ میم کے زیر اور ٹ کے زبر کے ساتھ ’مِنٹَو‘ ہے، جب کہ سعادت حسن والا ’وَن ٹُو‘ کے وزن پر ’مَنٹُو‘ہے۔ ’مَنٹُو‘ کشمیری پنڈتوں کی مشہور گوتھ ہے۔ اس سلسلے کی دیگر گوتھوں میں ’نہرُو‘ اور ’سَپرُو‘ بھی شامل ہیں۔ آپ کو شاید علم نہ ہو علامہ اقبال کا تعلق کشمیری پنڈتوں کی ’سَپرُو‘ گوتھ سے تھا۔

’یہ عظمت کا اعتراف ہی تھا کہ لاہور کا مشہور پارک منٹو سے منسوب کیا گیا۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

تفصیل سن کر بولے: یہ بات مجھے بھی پتا تھی، میں تو بس تمہارا امتحان لے رہا تھا۔
اس پہلے کہ بات آگے بڑھے ہم ’انصاری صاحب ‘ کا تعارف کروادیں۔ آپ سینیئر صحافی ہیں۔ آپ کی سنیارٹی میں پیشہ ورانہ مہارت سے زیادہ پیرانہ سالی کا دخل ہے۔
سعادت حسن منٹو کے مشہور افسانے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے مرکزی کردار ’بشن سنگھ‘ اور ہمارے ممدوح ’انصاری صاحب‘ میں بہت کچھ مشترک ہے۔ دونوں کی ذہنی حالت میں یکسانیت پائی جاتی ہے، موصوف حیدرآباد میں ہوتے تو ’گدو بندر‘ کے مکین ہوتے۔
بشن سنگھ کا تکیہ کلام ’ اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین‘ تھا جب کہ  ہمارے ممدوح کا تکیہ کلام ’رشکے دا پخپلے، دا گیتی دا پھاوڑے‘ ہے۔
پوچھا: انصاری صاحب یہ کیا؟
بولے : ’رشکے دا پخپلے، دا گیتی دا پھاوڑے‘
مطلب؟
مطلب یہ کہ اہل زبان اسے ’ترپال‘ کہتے ہیں۔
ترپال‘ کا اہل زبان سے کیا تعلق؟ ہم نے احتجاج کیا۔

’مکن ہے گورنر جنرل لارڈ منٹو، سعادت حسن منٹو کے بزرگوں میں سے ہوں، آخر کو دونوں ’منٹو‘ تھے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

بولے: پیارے یہ اردو زبان ہے۔ اس میں گائے پالنے والا ’گوپال‘ اور حساب کتاب جانے والا ’لیکھ پال‘ کہلاتا ہے اور جو ’تری‘ یعنی نمی یا پانی سے بچائے وہ ’ترپال‘ کہلاتی ہے۔
اس حساب سے تو’ترپال‘ کا مطلب ’پانی کی پرورش‘ کرنے والا ہوا نہ کہ پانی سے بچانے والا۔ ہم نے توجہ دلائی۔
چمک کر بولے: بھلے مانس’سرمے دانی‘ میں سرمہ اور ’صابن دانی‘ میں صابن ہوتا ہے مگر ’مچھر دانی‘میں مچھر نہیں ہوتا، اب کرو اس پر بھی اعتراض۔
اُن کے دلائل کا دَم اُس وقت نکل گیا جب ہم نے اُن کے سامنے انگریزی ڈکشنری رکھ دی، جس میں صاف صاف Tarpaulin (ٹارپالین) درج تھا۔ ہم نے کہا انگریزی کا ’ٹارپالین‘ بگڑ کر اردو میں ’ترپال‘ ہوا ہے اس کا گاؤپال یا لیکھ پال سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے ’رشکے دا پخپلے، دا گیتی دا پھاوڑے‘ کا نعرے بلند کیا اور موضوع  بدل دیا۔ کہنے لگے چائے پیو گئے بالائی والی؟
ملائی والی ہو تو پلادو ، بالائی ولائی ہم نہیں جانتے؟ ہم نے انہیں چھیڑا۔
بولے لکھنؤ میں اسے ’بالائی‘ پکارتے ہیں۔ پھر غور کرو یہی اس کا فطری نام ہے۔ چوں کہ یہ دودھ سے ’بالا ‘ہوتی ہے، لہٰذا اس نسبت سے ’بالائی‘ کہلاتی ہے۔ مگر  تم جیسوں نے اس بالائی کو ملائی بنادیا۔ ان کے آخری جملے میں طنز تھا۔

اوپر یا بلند کو فارسی میں ’بالا‘ کہتے ہیں یوں اس بالا سے بالائی کا لفظ نکل آیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

جواباً ہم نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا کہ آپ کا کیا خیال ہے آپ جو کہیں گے ہم مان لیں گے۔
بولے: اس بات کا کیا مطلب ہے؟
مطلب یہ ہے کہ اصل لفظ ’ملائی‘ ہے۔ ’بالائی‘ کا نام اسے لکھنؤ کے نواب سعادت علی خان نے دیا تھا۔ اب محض اتفاق ہے کہ ملائی دودھ کے اوپر ہوتی ہے اور اوپر یا بلند کو فارسی میں ’بالا‘ کہتے ہیں یوں اس بالا سے بالائی کا لفظ نکل آیا۔
اب دو باتوں پر غور کرو اول یہ کہ لفظ ’بالائی‘ کو لکھنؤ کے سوا کہیں اور پذیرائی نہیں ملی نتیجتاً ’ملائی‘ کا لفظ پوری آب و تاب سے موجود ہے۔ دوم یہ کہ بالائی کہنے میں اُس ملائمت اور لطافت کا احساس نہیں ہوتا جو ملائی سے وابستہ ہے۔    
 کِھلی بانچھوں کے ساتھ بولے : ان باتوں کو چھوڑو اور ملائی والی چائے پیو اور فوراً ’رشکے دا پخپلے، داگیتی دا پھاوڑے‘ ہوجاؤ۔

شیئر: