عدالت کو بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم کے بیٹے حسن نواز نے وارنٹ گرفتاری موصول کیے (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالا اب حکومت کا کام ہے کہ ان کی حاضری یقینی بنائی جائے۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جگہ ان کے معاون وکیل منور اقبال دُگل عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس عامر فاروق کے استفسار پر معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’نوازشریف نے چونکہ سماعت کا حق کھو دیا ہے اس لیے خواجہ حارث کی جگہ میں عدالت میں پیش ہوا ہوں، ہم اب بھی درخواست پر قائم ہیں کہ نوازشریف علاج کے لیے لندن میں موجود ہیں اور وہ پیش نہیں ہوسکتے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کروانے سے متعلق کی جانے والی کارروائی سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ دفتر خارجہ نے سابق وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری 17 ستمبر کو ہائی کمیشن کو بھیجے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لندن ہائی کمیشن سے نمائندہ ذاتی حیثیت میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر گیا جہاں یعقوب نامی شخص نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کیا تاہم نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری رائل میل سپیشل ڈیلیوری سروس کے ذریعے بھیجے گئے اور ان کے بیٹے حسن نواز نے وارنٹ گرفتاری وصول کیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے بھی بھیجے جائیں گے لیکن یہ صرف ایک رسمی کارروائی ہوگی۔
’نوازشریف کو وطن واپس لانے میں پیچیدگی برطانیہ سے ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم چاہیں گے تو اس پر معاہدے کی طرف جائیں گے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بیان پر جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ چاہیں گے سے کیا مراد؟ کیا انہیں واپس لانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ کیا وفاقی حکومت نے نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا؟ ہمارے سامنے 20 ہزار صفحات کی اپیل ہے اور ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نوازشریف کو بیرون ملک بھیجنے کا آرڈر ہم نے نہیں دیا، ’سزا یافتہ مجرم کو باہر بھیجتے وقت اس عدالت کو نہیں بتایا گیا، ہم کوئی حکم نہیں دیں گے کہ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ کریں یہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔ اب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نواز شریف کی حاضری یقینی بنائیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے دوران سماعت نکتہ اٹھایا کہ اگر ملزم کسی موقع پر پاکستان آ جاتا ہے اور ہم اپیل کا فیصلہ کر چکے ہوں تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ طریقہ کار پر مکمل طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، پاکستانی ہائی کمیشن لندن کاونٹی کورٹ کے ذریعے نوازشریف کو وارنٹ بھیجے جانے ہیں، کل ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت ہے اس حوالے سے طریقہ کار پر عمل سے متعلق وقت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کے علم میں تو ہوگا لیکن عدالت قانون پر مکمل طور پر عملدآمد کروائے گی، کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹس موصول کرنے یا نہ کرنے کی دستاویز آفیشل ہوگی۔
عدالت نے دفتر خارجہ سے کاؤنٹی کورٹ لندن کے ذریعے وارنٹ گرفتاری موصول کروانے پر وقت کے تعین کے حوالے سے رپورٹ طلب کی اور نوازشریف کی رہائش گاہ پر وارنٹ گرفتاری لے جانے والے ہائی کمیشن کے نمائندے کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔