Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شالامار اور مقبرہ جہانگیر کے نئے زاویے

مقابلے کا اہتتمام شالامار باغ اور مقبرہ جہانگیر پر ہوا۔ فوٹو اردو نیوز
سیاحت اور فنون لطیفہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی بھی علاقے کی سیاحت وہاں کے تاریخی ثقافتی ورثے اور فنون لطیفہ کا ذکر کیے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان تاریخی ورثے اور فنون لطیفہ کے اعتبار سے ایک شاندار ملک ہے جہاں چھ سے زیادہ عالمی ثقافتی ورثے کی سائٹس موجود ہیں جن میں چار صوبہ پنجاب میں ہیں۔
پنجاب میں موجود تاریخی ورثے کو نوجوان نسل میں متعارف کروانے کے لیے محکمہ سیاحت پنجاب نے شالامار باغ اور جہانگیر کے مقبرے کے حوالے سے عکاسی کے مقابلے کا اہتمام کیا جس کا مقصد نوجونواں کو تاریخی ورثے کی جانب راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامات کو ایک نئے زاویے سے دنیا کے سامنے لانا تھا۔
نوجوانوں نے انتہائی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
مقابلے کا اہتمام 12 ستمبر کو شالامار باغ میں کیا گیا جہاں محمکہ سیاحت پنجاب کے مینیجنگ ڈائریکٹر تنویر جبار نے مقابلے کے لیے آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر تمام فوٹوگرافرز کو باغ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور اس کے بعد تصاویر بنانے کی اجازت دی۔ 
اسی طرح 13 ستمبر کو مقابلے کا اہتمام شاہدرہ کے مقام پر شہنشاہ جہانگیر کے مقبرہ پر بھی کیا گیا جہاں محکمہ سیاحت کے افسران نے بریفنگ کے بعد اس مقام کی فوٹوگرافی کی اجازت دی۔  
مقابلے میں شریک نوجوانوں کا کام دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان کسی بھی میدان میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

جیتنے والوں کو ’عالمی سیاحت کے دن‘ کے موقع پر انعامات دیے جائیں گے۔ فوٹو اردو نیوز

محکمہ سیاحت پنجاب نے اس سلسلے میں باقاعدہ ایک کیلنڈر مرتب کیا جس میں نوجوانوں کے لیے مختلف سیاحتی سرگرمیوں کا منصوبہ بنایا گیا جس کا آغاز جلد ہی کیا جائے گا۔
مقابلے میں شریک نوجوانوں نے تاریخی مقامات کو مختلف زاویوں سے عکس بند کر کے سوشل میڈیا پر دنیا کے سامنے رکھا۔  
مقابلہ جیتنے والوں کو 27 ستمبر کو ’عالمی سیاحت کے دن‘ کے موقع پر محکمہ سیاحت پنجاب کی طرف سے انعامات دیے جائیں گے۔

شالامار باغ کی تاریخ 

مغل بادشاہ شاہ جہاں نے جب لاہور میں دربار لگایا تو علی مردان خان نے انہیں بتایا کہ ایک ایسا کاریگر ان کے پاس آیا ہے کہ جو نہر بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ شاہ جہاں نے فوراً حکم جاری کیا کہ دریائے راوی سے ایک نہر نکال کر لاہور کے پاس سے گزاری جائے۔
ایک سال کے بعد جب شاہ جہاں دوبارہ لاہور آئے تو نہر مکمل ہو چکی تھی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کے کنارے ایک وسیع و عریض باغ بنایا جائے، اس باغ میں بارہ دری، شاہی غسل خانے، فوارے اور جابجا پھلدار درخت لگائے جائیں۔
اس کام کے لیے خلیل اللہ کو مقرر کیا گیا، باغ کے لیے پودے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے۔ یہ باغ شالا مار تھا جو 80 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس باغ کا سنگ بنیاد 1637 میں رکھا گیا۔

شالامار باغ کا سنگ بنیاد 1637 میں رکھا گیا تھا۔ فوٹو اردو نیوز

مقبرہ جہانگیر تاریخ کے آئینے میں 

مقبرہ جہانگیر مغلیہ عہد میں تعمیر کیے گئے مقابر میں سے ایک ہے۔ یہ دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ کے ایک باغ میں واقع ہے۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کی تعمیر کا آغاز کروایا اور شاہ جہاں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مقبرہ مغلوں کی سب سے حسین یادگار مانا جاتا ہے۔ 
مقبرے کے چاروں کونوں پر مینار ہیں۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے۔
مقبرے کے اس حصے پر جہاں شہنشاہ نورالدین جہانگیر دفن ہیں ایک چبوترا بنایا گیا ہے۔ اندر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ مزار کے چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں۔
 مقبرہ جہانگیر کی حدود میں نور جہاں نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی تھی۔ اس مقبرے میں نور جہاں نے کافی عرصہ رہائش بھی اختیار کیے رکھی اس لیے یہاں رہائشی عمارات بھی تعمیر کئی گئی تھیں۔

شیئر: