Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کے قدیم ترین مقامات میں سے ایک، قریہ الفاؤ

الفاؤ کے گھروں میں صاف پانی کا نیٹ ورک بچھا ہوا تھا۔ یہ قریہ 300 قبل مسیح پہلے آباد تھا۔( فوٹو: سبق)
سعودی دارالحکومت ریاض سے 700 کلو میٹر جنوب میں 7 تمدنوں کا نمائندہ قریہ الفاؤ 2300 برس قبل جزیرہ عرب میں زندگی کے رسم و رواج کا پتہ دے رہا ہے۔
یہ قریہ وادی الدواسر میں الخماسین سے 150 کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہاں سے الربع الخالی صحرا نظر آتا ہے۔  
سبق ویب سائٹ کے مطابق قریے کے باشندے اسے الحمرا (سرخ) یا ذات الجنان کہتے ہیں۔ یہ قریہ 300 قبل مسیح پہلےآباد تھا۔ الفاؤ میں کاروبار صبا، قتبان، حمیرِ، حضر موت، فارس، عراق اور بحرین 7 تمدنوں کے درمیان پل کا  کام انجام دے رہا تھا۔

الفاؤ قریے میں مکانات کے کھنڈر اور پوجا گھروں کے نشانات ملے ہیں۔ (فوٹو: سبق)

 صبا کے شہروں سے تجارتی قافلے نکلتے، نجران کا رخ کرتے، وہاں سے الفاؤ ہوتے ہوئے الخرج پہنچتے جہاں سے ھجر اور پھر الرافدین اور فارس کا رخ کیا کرتے تھے۔
یہ جزیرے کا نمبر قریہ جزیرہ قبرص کے قریے اور فلسطینی قریے اریحا کے بعد دنیا بھر میں قدیم ترین تاریخی قریوں کے بعد آتا ہے۔ 
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق الفاؤ قریے میں مکانات کے کھنڈر، بازار کی فصیلوں، قبرستانوں اور پوجا گھروں کے نشانات ملے ہیں۔
یہاں 120 کنوؤں کے نشانات بھی ریکارڈ پر آئے ہیں۔ تاریخی کھدائی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ الفاؤ قریے کے باشندے کھیتی باڑی میں دلچسپی لیتے تھے۔

قریے کے باشندے کھیتی باڑی میں دلچسپی لیتے تھے۔ (فوٹو: سبق)

انہوں نے گہرے کنویں کھودے تھے۔ بستی میں پانی لانے کے لیے نہریں بنائی تھیں۔ کھجوروں، انگوروں اور اجناس کی کاشت کیا کرتے تھے۔ 
الفاؤ کے گھروں میں صاف پانی کا نیٹ ورک بچھا ہوا تھا۔ ان میں انسانی  فضلے کے باقاعدہ ٹینک بنے ہوئے ملے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قریے کے باشندے بالائی منزلوں میں بھی ٹوائلٹ بنایا کرتے تھے۔
الفاؤ قریے سے مورتیاں بھی ملی ہیں۔ کئی نامکمل بھی ہیں۔ دھاتوں، پتھروں، کچی پکی مٹی کے بنے مجسمے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ الفاؤ قریے سے اونٹوں، بکروں کے بال اور کاٹن کے کپڑے بھی حاصل ہوئے ہیں۔

شیئر: