Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک طرف لاک ڈاؤن اور دوسری جانب ریلی

پیپلز پارٹی کو ریلی کے اعلان کے بعد سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے اتوار کو کراچی میں ریلی کے انعقاد کا اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے جب صوبائی حکومت کورونا کے دوبارہ پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر شہر بھر میں مائیکرو لاک ڈاؤن کے تحت متعدد کاروبار بند کرا چکی ہے۔ ایسے موقع پر عوامی اجتماع کا اعلان عوام میں خاصی تشویش پیدا کر رہا ہے۔
صوبائی وزرا اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کی جانب سے جمعے کو اعلان کیا گیا تھا کہ 4 اکتوبر بروز اتوار کراچی کے علاقے عائشہ منزل سے ایمپریس مارکیٹ تک ریلی نکالی جائے گی۔

 

اس دوران جب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی توجہ لاک ڈاون کی جانب مبذول کروائی گئی کہ ایک جانب انہی کی صوبائی حکومت شہر میں کاروبار بند کروا رہی ہے اور دوسری جانب وہ عوامی اجتماع منعقد کر رہے ہیں۔
اس پر صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا تھا کہ ایسا وہ ایم کیو ایم کے جواب میں کر رہے ہیں، اور ریلی نکالنا اشد ضروری ہے۔
پیپلز پارٹی کو ریلی کے اعلان کے بعد سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ کیا مائیکرو لاک ڈاؤن کے نفاذ کے متوازی ریلی کرنا مناسب فیصلہ ہے؟
 اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے سعید غنی نے جواز پیش کیا کہ ’ریلی میں شرکا اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر ہوں گے۔ اس وقت پورے ملک میں گاڑیوں حتیٰ کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر کوئی پابندی نہیں ہے لہٰذا عام طور پر بھی لوگ ان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔‘
سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی کراچی نے اس حوالے سے انتظامات کیے ہیں تاکہ ریلی کے شرکا ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کر سکیں۔

یکجہتی ریلی عائشہ منزل سے شروع ہو کر ایمپریس مارکیٹ پہنچ کر اختتام پذیر ہو گی (فوٹو: اے ایف پی)

سعید غنی نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس ریلی کے حوالے سے تمام انتظامات مکمل کیے جائیں، ریلی کے باعث عوام کو کم سے کم تکلیف کا سامنا ہو اس لیے متبادل راستوں کو ہموار کیا جائے گا۔‘
یکجہتی ریلی عائشہ منزل سے شروع ہو کر لیاقت آباد، تین ہٹی، گرومندر سے پیپلز سیکرٹریٹ اور لائنز ایریا سے ایمپریس مارکیٹ پہنچ کر اختتام پذیر ہو گی۔
یہ ریلی کراچی کے متعدد اضلاع سے گزرے گی اور ان تمام اضلاع میں گذشتہ تین روز سے مائیکرو لاک ڈاؤن نافذ ہے جس کے تحت کئی ریستوران، ہوٹل اور شادی ہالز کو سیل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ کے آخر میں متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی نے کراچی میں ریلی کا انعقاد کیا تھا، ایم کیو ایم کی ریلی کا تو روٹ بھی وہی تھا جو پیپلز پارٹی اختیار کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے مطابق ریلی کے شرکا کے لیے ایس او پیز پر عمل درآمد کے انتظامات کیے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پیپلز پارٹی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ اتوار کو ہونے والی یکجہتی ریلی ایم کیو ایم کی جانب سے لسانیت کو فروغ دینے کے جواب میں منعقد کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنی ریلی میں علیحدہ صوبے کے قیام کا مطالبہ دہرایا تھا، جس پر پیپلز پارٹی نے تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ سندھ کے عوام کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم نے بھی اتوار کو حیدرآباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں وسیم اختر، عامر خان اور دیگر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں شہری علاقوں کو برباد کر دیا ہے، اسی کا خلاف یہ ریلی منعقد کی جائے گی۔

 

باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں