Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیما کو ’اغوا، ریپ اور پھر جلا دیا گیا‘

شیما کے قتل کے واقعے نے پورے الجزائر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے (فوٹو: انسپلیش)
اغوا، ریپ اور پھر جلا دی جانے والی 19 سالہ شیما سیدو کی لاش دو اکتوبر کو تھینیا کے ایک متروک گیس سٹیشن سے ملی۔
یہ شہر الجزائر  کے دارالحکومت سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق کی جانب واقع ہے۔
شیما کے قاتل کی نشاندہی ریان کے طور پر ہوئی، اس کے بارے میں حکام کو پہلے ہی معلوم تھا کیونکہ 2016 میں متاثرہ خاندان نے اس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔
پریس کانفرنس میں پبلک پراسیکیوٹر نے قتل کے بارے میں مزید انکشافات کیے۔ مبینہ قاتل خود حکام کے پاس گیا اور انہیں اطلاع دی کہ اس کے دوست نے ایک متروک شدہ گیس سٹیشن جلا دیا ہے۔
ملزم کے بیان کے مطابق واقعہ یکم اکتوبر کو دن تین بجے کے قریب پیش ہوا۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ شکار ہونے والی لڑکی کے ساتھ صرف سات منٹ تک رہا، لڑکی نے اسے کہا کہ وہ بھوکی ہے، کھانے کے لیے کچھ لا دے۔ وہاں سے پانچ میٹر دور ہوتے ہی اس نے جہاں لڑکی کو چھوڑا تھا وہیں سے دھواں اٹھتا دیکھا۔

قاتل نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکی کو بہلا پھسلا کر لے گیا تھا (فوٹو: انسپلیش)

اس قتل کی تحقیقات کا فوری طور پر آغاز کر دیا گیا، اور شکار ہونے والی لڑکی کے جسم کا جائزہ بھی لیا گیا۔
پراسیکیوٹر کے مطابق ’لڑکی کے جسم پر مختلف چوٹوں کے نشانات کے علاوہ کھوپڑی کے پچھلے حصے پر بڑا زخم تھا جبکہ بائیں ران بھی زخمی تھی۔‘
اٹارنی جنرل کے سامنے پیش ہونے کے بعد قاتل نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکی کو بہلا پھسلا کر گیس سٹیشن تک لے گیا تھا جہاں اس نے اس کا ریپ کیا، اسے زدو کوب کیا اور پھر جلا دیا۔
 اس اعتراف جرم کے مبینہ مجرم کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
اس واقعے سے پورے الجزائر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جو دنیا کے دیگر ملکوں تک بھی پہنچی جبکہ فرانس میں #JeSuisChaima کے ہیش ٹیگ ٹرینڈز بھی چلے۔

 الجزائر میں 1993 کے بعد سے کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی (فوٹو: انسپلیش)

متاثرہ خاندان نے قاتل کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔
شیما کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی کو قتل کیا گیا اور جلایا گیا، میں مطالبہ کرتی ہوں کہ قاتل کو موت کی سزا دی جائے، میں صرف یہی کہنا چاہتی ہوں۔‘
انہوں نے الجزائر کے صدر عبدالمجید تیبون سے مداخلت کا مطالبہ بھی کیا۔
نیشنل فاؤنڈیشن فار پروموشن آف ہیلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ ریسرچ کے صدر مصطفیٰ خیاتی نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ ریپ اور قتل کرنے والوں کو سزائے موت دینے کے حق میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الجزائر میں ہر سال خواتین کے اغوا، ریپ اور قتل کے ایک یا دو واقعات ہوتے ہیں۔‘
دوسری جانب جیورسٹس اور انسان حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا خیال ہے کہ سزائے موت جرائم کو نہیں روک سکتی۔

مقتولہ کی ماں نے الجزائر کے صدر عبدالمجید تیبون سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے (فوٹو: نیڈپکس)

اس حوالے سے قانون دان زکریا بینلارک حکومت کی اس کی قانونی مہلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو 1993 میں دی گئی اور تب سے پھر سے کوئی پھانسی نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن ہونے کے ناتے میں سزائے موت کے خلاف ہوں چاہے جرم کی نوعیت کچھ بھی ہو۔‘
بینلارک نے یہ بھی کہا کہ الجزائر نے انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی کنونشنز کی توثیق کر رکھی ہے۔
’موت کی سزا انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، یہ ایک بے رحمانہ سزا ہے۔‘
 الجزائر میں ہر سال درجنوں مقدمات میں سزائے موت سنائی جاتی ہے خصوصاً دہشت گردی کے کیسز میں، تاہم 1993 کے بعد سے اب تک کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی۔

شیئر: