Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن اور حکومت کیا کارڈز کھیلیں گی؟

تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام گزشتہ برس نومبر میں دھرنا دے چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اپوزیشن کے نئے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے گوجرانوالہ سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان ہوتے ہی سیاسی محاذ گرم ہو گیا ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے سیاسی کارڈز اور آپشنز پر غور کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
اپوزیشن سول بالادستی، مہنگائی اور حکومتی نااہلی کے نعروں کےساتھ میدان میں اتر رہی ہے تو حکومت بھی اپوزیشن رہنماؤں پر کرپشن، ملک دشمنی اور غداری جیسے الزامات عائد کر کے ان کی تحریک کی مقبولیت ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اتحاد کی قیادت مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمن کے حوالے کر کے دائیں بازو کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی سٹریٹ پاور کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفوں کا آخری اور خطرناک کارڈ کھیلنے کا بھی عندیہ دیا ہے مگر کیا اس کی نوبت آئے گی؟
کیا اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف مذہب کارڈ بھی کھیلا جائے گا؟ کیا سولہ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ہونے والا اپوزیشن کا پہلا شو کامیاب ہو کر بڑی تحریک کی بنیاد رکھ دے گا یا ایک فلاپ شو کے بعد تحریک کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی؟

عوام کی نبض پر ہاتھ کس کا ہو گا؟

سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو سیاسی جماعتوں یا حکومت کے اپنے مسائل یا کمزوریوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کون ان کے مسائل کی بات کر رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کس حد تک لوگوں کے مسائل جیسے مہنگائی، غربت، لاقانونیت وغیرہ پر انہیں متحرک کر سکتی ہے؟

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک میں مذہبی کارڈ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی کی بات کرے گی تو عوام کو شاید زیادہ دلچسپی نہ ہو کیونکہ یہ صرف پنجاب کی تحریک نہیں اس میں خیبر پختونخوا سے مولانا فضل الرحمن اور سندھ سے بلاول بھٹو زرداری بھی ہیں تو اس لیے لوگوں کے حقیقی مسائل ہی اہمیت رکھیں گے۔
زاہد حسین کے مطابق فیصلہ کن چیز یہ ہو گی کہ اپوزیشن کیا لوگوں کو متحرک کر سکتی ہے؟
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کی قیادت کے باجود شاید مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر پائے گی کیونکہ اتحاد میں دوسری جماعتیں بھی ہیں۔

کیا اپوزیشن کا اتحاد برقرار رہ پائے گا؟

گو کہ اپوزیشن اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے چہ میہ گوئیاں ہو رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت کی شکل میں سسٹم میں سب سے بڑی شراکت داری کے باعث شاید پاکستان پیپلز پارٹی اتحاد کے ساتھ آخری حد تک نہ جائے تاہم زیادہ تر سایسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں اپوزیشن اتحاد کو فوری طور پر خطرہ نہیں کیونکہ تمام جماعتوں کو موجودہ حکومت سے اپنے اپنے شکوے شکایات ہیں۔

اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک چلتی ہے تو ساری جماعتیں سو فیصد متفق نہیں ہوتیں تاہم ان کا ایک کم سے کم مشترکہ ایجنڈا ہوتا ہے ۔اختلاف کی نوبت تب آئے گی جب اپوزیشن جنوری میں استعفوں کے آپشن کی طرف آئے گی مگر کیا جنوری تک تحریک چل بھی پائے گی؟ اگر جنوری تک اپوزیشن نے باقی رکاوٹیں عبور کر کے تحریک چلا لی تو پھر شاید اس کے بعد اگلے مرحلے پر بھی اپوزیشن اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد اس لیے فوری طور پر ٹوٹنے کا امکان نہیں کہ بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں حکومت پر کتنا پریشر ڈال پائیں گی؟
دوسری طرف حکومت بھی کمزور وکٹ پر ہے کیونکہ اس کے پاس اسمبلیوں میں زیادہ اکثریت نہیں ہے اور نہ ہی اس وقت عوام میں زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ میں حکومت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حکومت اور اپوزیشن کے پاس کون کون سے کارڈز ہیں؟

سیاسی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق اپوزیشن کے پاس تین چار ایشوز ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ موجودہ حکومت آزاد اور خودمختار نہیں ہے اور سول سپرمیسی ہونی چاہیے دوسرا الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے، تیسرا حکومت اہل نہیں ہے، مہنگائی ہے اور ترقیاتی منصوبے نہیں بن رہے اور چوتھا احتساب کا عمل شفاف نہیں ہے ۔اپوزیشن ان کارڈز کو تحریک کے دوران کھیلے گی۔
دوسری جانب حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی قیادت وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جو الیکشن ہار چکے ہیں اور مسترد شدہ ہیں۔ اپوزیشن کے رہنما کرپٹ ہیں اور انہوں نے چالیس سال سے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے، ابو، چاچو کو بچانے کی مہم چل رہی ہے وغیرہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو کس کے دعوے پر زیادہ اعتبار ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق حکومت اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کر سکتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اپوزیشن کے خلاف غداری کا کارڈ ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن انڈیا کے ایما پر ملک میں بے چینی پیدا کرنا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن کی بڑی جماعت نواز لیگ کے پاس پرفارمنس کارڈ ہے کہ ہم نے اپنی حکومت میں زیادہ بہتر پرفارم کیا تھا۔ تاہم ان کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ مذہب کارڈ اپوزیشن استعمال نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس انتظامی کارروائیوں اور اپوزیشن کی گرفتاریوں کا آپشن ہے کیونکہ وہ نہیں چاہے گی کہ اپوزیشن بڑے بڑے جلسے کرے جس کی قیادت مریم نواز اور دیگر اپوزیشن رہنما کریں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق حکومت اتنا بڑا شاک برداشت نہیں کر سکتی اس لیے ان کے خیال میں گرفتاریوں کا امکان ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کے خیال میں حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی آخری کارڈ نہیں کھیلنا چاہتا۔دونوں منتظر ہیں کہ عوام کی جانب سے کیا رسپانس ملتا ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: