دوحہ میں ہونے والے مذاکرات سے واقف فلسطینی اور اسرائیلی ذرائع نے سنیچر کو بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے ہونے والے مذاکرات فلسطینی حدود سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے معاملے پر تعطل کا شکار ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ذرائع نے کہا کہ معاہدے میں نئی رکاوٹوں کے باوجود 60 دن کی جنگ بندی کی امریکی تجویز پر بالواسطہ بات چیت کے جاری رہنے کی توقع ہے۔
ایک فلسطینی ذریعے کے مطابق حماس نے انخلا کے اسرائیلی نقشوں کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ اس کے مطابق وہ اسرائیل کے زیرِکنٹرول تقریباً 40 فیصد علاقہ چھوڑ دیں گے، جس میں رفح کا تمام جنوبی علاقہ اور شمالی اور مشرقی غزہ کے مزید علاقے شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
اس بات چیت سے واقف دو اسرائیلی ذرائع نے بتایا کہ حماس چاہتی ہے کہ اسرائیل رواں برس مارچ میں حملوں کے دوبارہ آغاز سے قبل کی سابقہ جنگ بندی کے مطابق پیچھے ہٹ جائے۔
تاہم فلسطینی ذریعے کا کہنا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے امداد اور ضمانتوں سے متعلق معاملات بھی ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں، لیکن اس بحران کو مزید امریکی مداخلت سے حل کیا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے پیر کو کہا کہ ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکوف، جنہوں نے جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس ہفتے دوحہ کا دورہ کریں گے تاکہ وہاں بات چیت میں شامل ہوں۔
اسرائیل اور حماس کے وفود اتوار سے قطر میں ایک معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں جس میں یرغمالیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے پر بات چیت کی گئی ہے۔

حماس کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی سے قبل جنگ ختم کی جائے۔ جبکہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ وہ لڑائی تبھی ختم کرے گا جب تمام یرغمالیوں کو رہا اور حماس کو ختم کر دیا جائے گا۔
غزہ میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا۔ حماس کے اس حملے میں 12 سو افراد ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کے جوابی حملے میں غزہ کے حکام صحت کے مطابق 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔