Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انفلوئنزا ویکسین کی عدم دستیابی، 'کسی کو پتا نہیں'

فلو کی سب سے زیادہ خطرناک قسم انفلوئنزا ہے۔ فوٹو ٹوئٹر
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موسم سرما کی آمد پر انفلوئنزا کی ویکسین تاحال دستیاب نہیں ہے، تاہم صوبائی وزارت صحت ویکسین کی فوری درآمد کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ 
پنجاب ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر راؤ عالمگیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ صوبہ پنجاب میں فی الحال انفلوئنزا کی ویکسین دستیاب نہیں۔
’پاکستان بھر میں انفلوئنزا کی ویکسین دستیاب نہیں ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہر سال چونکہ اس وائرس کی سٹرین بدلتی ہے اس لیے اس کی ویکسین بھی بدل جاتی ہے، اور نئی ویکسین بھی عالمی ادارہ صحت کی منظوری کے بعد ہی بنتی ہے۔‘
خیال رہے کہ انفلوئنزا بنیادی طور پر فلو کی سب سے زیادہ خطرناک قسم تصور کی جاتی ہے اور یہ وبائی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انفلوئنزا کے جراثیم بیکٹیریا اور وائرس دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر راؤ عالمگیر نے بتایا کہ اس سال عالمی ادارہ صحت نے ٹیٹرا ویلنٹ سٹرین کو منظور کیا ہے اور دنیا بھر کی بڑی کمپنیاں اس کو سال 2020 اور 2021 کے موسم سرما کے لیے تیار کر رہی ہیں۔
’ہم اب تک تین بار ٹینڈر دے چکے ہیں لیکن کوئی بھی کمپنی سامنے نہیں آئی جو ویکسین کو درآمد کرنے کی خواہش مند ہو۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ نئی سٹرین ٹیٹراویلنٹ کی رجسٹریشن پاکستان میں ہو چکی ہے اور کسی ایک کمپنی نے لائسنس بھی حاصل کر لیا ہے لیکن ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘ 
فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیر ناگرا کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں انفلوائنزا کی ویکسین بالکل دستیاب نہیں ہے۔

پچھلے سال پنجاب میں صرف 36 ہزار مریضوں کو ویکسین لگائی گئی تھی۔ فوٹو فیس بک

انہوں نے بتایا کہ ویکسین کا سٹاک رکھنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ ہر سال منگوانا پڑتی ہے۔
’پاکستان چونکہ ویکسین بنانے والا ملک نہیں ہے، اس لیے یہاں ویکسین کی درآمد صوبائی حکومتوں، وفاقی حکومت، فارما کمپنیوں اور عالمی ادارہ صحت کے مشترکہ تعاون سے منگوائی جاتی ہے۔‘ 
فارما سوٹیکل ایسوسی ایشن لائرز فورم کے سربراہ نور مھر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں دس ایسی نجی کمپنیاں موجود ہیں جن کے پاس ویکسین کی درآمد کا لائسنس ہے اور لائسنس کی تجدید ہر سال کی سٹرین کے مطابق ہوتی ہے۔
’کورونا اور ملکی حالات کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں نے درآمدی کام کم کر دیے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو چاہیے تھا کہ اس کا حل نکالتی۔ عام طور پر پاکستان میں انفلوئنزا کی ویکسین اکتوبر میں درآمد کر لی جاتی ہے جبکہ اس بار کسی کو کچھ پتا نہیں۔ حالانکہ عالمی ادارہ صحت ہر سال ہر ملک کا کوٹہ مختص کرتا ہے۔‘
پنجاب ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر راؤ عالمگیر نے بتایا کہ لوگوں میں انفلوئنزا کی ویکسین لگوانے کا رجحان زیادہ نہیں رہا، پچھلے سال صرف 36 ہزار مریضوں کو ویکسین لگائی گئی تھی۔

انفلوئنزا کی ویکسین پاکستان بھر میں دستیاب نہیں ہے۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ ڈی جی ہیلتھ آفس صوبے کے تمام صحت کے اہلکاروں کے لیے ویکیسن خریدتا ہے یا پھر سرکاری ہسپتالوں میں انفلوئنزا کے کنفرم مریضوں کو ویکسین دینے کا پابند ہوتا ہے، جبکہ عام عوام کے لیے یہ ویکسین مارکیٹ سے خریدنا ہوتی ہے جس کے لیے مختلف کمپنیاں اسے درآمد کر کے اوپن مارکیٹ میں بیچتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے سال تک ایبٹ اور سنوفی انفلوئنزا ویکسین درآمد کرتی تھی، اس سال کے لیے یہ دونوں کمپنیاں آگے نہیں آئی ہیں، آئندہ کچھ روز تک صورت حال مزید واضح ہو جائے گی۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں