Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخری جنگ کی یادگار خستہ حالی کا شکار

لاہور اور راولپنڈی کے درمیان جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے کھاریاں کے مقام سے ایک سڑک جنوب مغرب کی جانب نکلتی ہے جو براستہ ڈنگہ منڈی بہاوالدین جاتی ہے۔
یہ سڑک تاریخی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ کھاریاں سے کم و بیش 40 کلومیٹر جبکہ ڈنگہ سے 10 کلومیٹر آگے چیلیانوالہ گاؤں کے مقام پر انگریزوں کی جانب سے پنجاب پر قبضے کا آخری معرکہ برپا ہوا تھا۔
انگریز حکومت نے سنہ 1871 میں اس تاریخی جنگ کی یادگار چیلیانوالہ کے مقام پر تعمیر کی۔ جو 150 سال گزر جانے کے باوجود اپنی اصلی لیکن نسبتاً خستہ حالت میں موجود ہے۔
یادگار پر کندہ تحریر کے مطابق 13 جنوری 1849 کو ہونے والی اس لڑائی میں انگریز فوج کی قیادت جنرل گف جبکہ سکھ فوج کی قیادت مقامی راجہ شیر سنگھ نے کی تھی۔
تاریخ دانوں کے مطابق 12 ہزار جوانوں کی سکھ فوج نے انگریزوں کو خوب پچھاڑا۔ انگریز فوج کو گھنے جنگل کی وجہ سے مورچہ بندی میں مشکل ہوئی۔ ہندوستان بھر میں لڑی جانے والی جنگوں میں سے اس لڑائی میں ایک ساتھ مارے گئے گورے سپاہیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔
تاریخ میں اس جنگ کے نتیجے کے حوالے سے متضاد دعوے کیے گئے ہیں تاہم پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے باعث زیادہ تر محققین انگریز کو فاتح قرار دیتے ہیں اور اس کی وجہ دیگر علاقوں سے انگریز فوج کو پہنچنے والی تازہ کمک بتائی جاتی ہے۔
مقامی تاریخ دان میاں محمد اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پنجاب پر قبضے کی جنگ میں انگریز کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا چیلیانوالہ کے مقام پر ہونے والی لڑائی میں ہی کرنا پڑا تھا۔ انگریز پنجاب پر قبضے کے لیے جب مختلف علاقوں میں سکھ سرداروں اور راجاؤں سے مدمقابل تھا اس وقت اس کے لیے سب بڑا چیلنج گجرات پر قبضہ کرنا تھا۔‘

چیلیانوالہ جنگ میں سب سے زیادہ انگریز فوج مارے گئے (فوٹو: اینگلو سکھ وار ویب سائٹ)

میاں محمد اکرم کے مطابق ’چیلیانوالہ میں برطانوی فوجوں کی فیصلہ کن جیت سے 11 مارچ 1849 کو جنگ بندی ہو گئی۔ شیر سنگھ نے رسمی طور پر راولپنڈی کے نزدیک میجر جنرل گلبرٹ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔‘
چیلیانوالہ ڈنگہ اور منڈی بہاوالدین کے درمیان ایک گاؤں ہے۔ جو ماضی میں ضلع گجرات کا حصہ تھا۔ 1993 میں منڈی بہاوالدین کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو یہ گاؤں اس ضلع کا حصہ بن گیا۔
 چیلیانوالہ کے ایک طرف منڈی کھاریاں روڈ جس سے سرگودھا، پنڈ دادن خان اور جہلم جانے والی رابطہ سڑکیں بھی نکلتی ہیں اور دوسری جانب لالہ موسیٰ جنکشن سے منڈی بہاوالدین، سرگودھا اور خوشاب کے لیے ریلوے لائن موجود ہے۔
منڈی بہاوالدین اور ڈنگہ کے درمیان چیلیانوالہ کا ریلوے سٹیشن بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سٹیشن انگریزوں نے اس جنگ میں مارے جانے والے سپاہیوں کی یادگار پر ان کے خاندانوں کی آمد کے لیے بنایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھی انگریز سپاہیوں کے خاندان اور برطانوی حکام یہاں آتے تھے تاہم یہ سلسلہ رفتہ رفتہ ختم ہوگیا۔

یادگار کے ایک احاطے میں چند پختہ قبریں بھی موجود ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

1849 کی جنگ کی یادگار کو مقامی لوگ قتل گڑھ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ یادگار دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ایک صلیبی مینار پر مشتمل ہے جس کے ایک طرف اس کے سنگ بنیاد کی تختی جبکہ دوسری جانب اس جنگ میں مارے جانے والے 28 انگریز افسروں اور سپاہیوں کے نام درج ہیں۔
یادگار کا دوسرا حصہ سرخ اینٹوں سے بنے عمودی مینار ایک احاطے جس کے اندر چند پختہ قبریں موجود ہیں پر مشتمل ہے۔ اس مینار کے چاروں طرف سیڑھیاں بنا کر چبوترہ بنایا گیا ہے۔
مینار کے ابتدائی حصے پر چاروں طرف انگریزی، اردو، فارسی اور گورمکھی زبان میں جنگ 1849 کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے۔ اس یادگار کے چاروں کونوں پر بوہڑ کے قدیم درخت بھی موجود ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ یادگار خستہ ہوتی جا رہی ہے۔ قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو دیواریں موسموں کی سختیاں جھیل جھیل کر اپنے انہدام کی طرف گامزن ہیں۔

اس لڑائی میں انگریز فوج کی قیادت جنرل گف جبکہ سکھ فوج کی قیادت مقامی راجہ شیر سنگھ نے کی تھی (فوٹو: اینگلو سکھ وار ویب سائٹ)

مقامی تاریخ دان میاں محمد اکرم کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں اس یادگار کی دیکھ بھال کے لیے ملازم ہوا کرتے تھے۔ ان کی تنخواہ بھی برطانوی حکومت کی جانب سے ادا کی جاتی تھی۔ اور شاید اب بھی تنخواہ لیتے ہوں لیکن ان کی موجودگی کا کوئی آثار نظر نہیں آتا۔
 ان ملازمین کے رہائشی کمرے بھی گر چکے ہیں۔ جن کا ملبہ وہیں موجود ہے۔
مقامی تاریخ سے شغف رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی مقام اور یادگار ہے جس کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔ اس لیے حکومت اس کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال کا مناسب انتظام کرے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں