Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا انضمام کو عمران خان ٹیم میں لائے؟

1992 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف انضمام الحق نے میچ پانسہ پلٹ دیا تھا۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)
عمران خان نے اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا ہے کہ  انضمام الحق کو اتفاقاً اس ٹرائل کیمپ میں دیکھا جو انھوں نے اور مدثر نذر نے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے لگایا تھا۔ انضمام کو دیکھتے ہی دونوں کو اندازہ ہوگیا کہ ان میں غیر معمولی خداداد صلاحیت ہے۔
عاقب جاوید نے انڈر19 میں انضمام کی کارکردگی کی عمران خان سے خاصی تعریف کی لیکن جاوید میانداد اور سلیم ملک ان سے زیادہ متاثر نہیں تھے کیونکہ انضمام نے ان کے ڈیپارٹمنٹ کے خلاف سکور نہیں کیا تھا۔
عمران خان  کے مطابق انضمام کے کھیل سے انھیں محسوس ہوا کہ وہ ون ڈے میں ٹیم کو باآسانی کامیابی دلا سکتے ہیں۔
چند سال پہلے وسیم اکرم نے کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو سے گفتگو میں بتایا کہ انضمام الحق  ٹیم میں آئے تو عمران خان ان کی بڑی تعریف کرتے تھے اور انھیں ’نادر ٹیلنٹ‘ (Rare talent) قرار دیتے تھے۔
انھوں نے ایک دن عمران خان سے کہا کہ ’سکیپر! یہ بات  میں جانتا ہوں کہ وہ باصلاحیت بیٹسمین ہے لیکن وہ نادر کیوں ہیں؟ اس پر انھیں جواب ملا ’وسیم اگر باریک بینی سے جائزہ لو گے تو تمھیں معلوم ہو گا کہ فاسٹ بولنگ کو کھیلنے کے لیے اس کے پاس کتنا زیادہ وقت ہوتا ہے۔
اسی انٹرویو میں وسیم اکرم نے بتایا کہ انضمام الحق نیٹ پریکٹس کے دوران انھیں اور وقار یونس کو یوں کھیلتے جیسے وہ  دونوں فاسٹ بولر نہیں سپنرز ہوں۔
 92 کے ورلڈ کپ سے پہلے سری لنکا کے خلاف ون ڈے میچوں میں عمدہ بیٹنگ سے انضمام  نے شائقینِ کرکٹ کی توجہ حاصل کرلی تھی لیکن ان کی صلاحیت کا اصل امتحان ورلڈ کپ تھا۔
 اس عالمی مقابلے میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں 37 گیندوں پر  60 رنز بنا کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس میچ سے قبل انضمام الحق کی طبیعت ناساز تھی۔ کپتان کے سامنے میچ کھیلنے سے معذوری ظاہر کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو عرضِ مدعا کے لیے لیگ سپنر مشتاق احمد سے مدد لی۔

انضمام الحق ان عظیم کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ دونوں میں اپنا لوہا منوایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مشتاق احمد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ’انضمام الحق کا سیمی فائنل سے پہلے معدہ خراب تھا اور وہ ساری رات سو نہ سکا۔ میں نے عمران بھائی کو انضمام کی طبیعت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ میچ نہیں کھیلنا چاہتا تو عمران بھائی نے کہا کہ ’اسے جاکر بتا دو وہ اوپر کے نمبروں پر بیٹنگ کے بجائے چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرے گا لیکن میچ وہ ہر صورت کھیلے گا۔
سیمی فائنل کے بعد  فائنل میں انگلینڈ کے خلاف بھی انضمام  نے عمدہ بیٹنگ کی اور کپتان کے خود پر اعتماد کو درست ثابت کردیا۔
1993 میں پورٹ آف سپین میں 90 رنز (ناٹ آؤٹ) بنا کر ویسٹ انڈیز میں پاکستان کو ون ڈے میں پہلی دفعہ کامیابی دلائی۔ 1994 میں نیوزی لینڈ کے خلاف عامر سہیل کے ساتھ دوسری وکٹ کے لیے 263 رنز جوڑ کر کسی بھی وکٹ کے لیے زیادہ رنز  کی شراکت داری کا قومی ریکارڈ بنایا۔
اس وقت یہ ریکارڈ ان کے بھانجے امام الحق اور فخر زمان کے پاس ہے جنھوں نے 2018 میں زمبابوے کے خلاف بطور اوپنر 304 رنز بنائے۔ یہ کیرئیر کے ابتدائی زمانے کی چند مثالیں ہیں، اس کے بعد تو 378 میچوں کی لمبی داستان ہے جس میں انھوں نے  بہت سی یادگار اننگز کھیلیں۔
انضمام الحق ان عظیم کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ دونوں میں اپنا لوہا منوایا۔ ٹیسٹ میں  25 سنچریاں سکور کیں، 17 ان میچوں میں بنیں جن میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی۔ ٹرپل سنچری بنائی۔ ایک ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری کی۔  184 رنز کی اننگز سے 100 واں ٹیسٹ یادگار بنایا۔ اس وقت ہمیں ان کی دو ایسی اننگز کا ذکر کرنا ہے جب ٹیم بہت زیادہ دباؤ میں تھی لیکن وہ اسے بحران سے  نکال کر ایک وکٹ سے کامیابی دلانے میں کامیاب ٹھہرے۔

انضمام  نے 2003 میں بنگلا دیش کے خلاف ملتان میں یادگار اننگز کھیلی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ برس  کرک انفو نے ایک وکٹ سے اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرانے والی پانچ عظیم اننگزوں کا ذکر کیا اور انھیں ماڈرن کلاسکس قرار دیا۔ ان پانچ میں سے دو اننگز انضمام الحق کی ہیں۔
 1994 میں کراچی میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کو جیت کے لیے 314 رنز بنانے تھے۔ نویں وکٹ گری تو 56رنز درکار تھے۔ اس کڑے وقت میں انضمام الحق نے مشتاق احمد کے ساتھ مل کر مطلوبہ ہدف تک رسائی ممکن بنائی اور 35 برس بعد آسٹریلیا کی پاکستان میں ٹیسٹ جیتنے کی جو امید پیدا ہوئی تھی، اسے پورا نہ ہونے دیا۔  
اس روز قسمت بھی انضمام کے ساتھ تھی، جیت کے لیے جب  تین رنز چاہیے تھے شین وارن کی گیند پر وکٹ کیپر ہیلی نے انھیں سٹمپ کرنے کا موقع گنوا دیا اور بائز کے چار رنز سے پاکستان نے میچ جیت لیا۔
آسٹریلین ٹیم کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ معروف امپائر ڈکی برڈ  کے مطابق نویں وکٹ گرنے پر آسٹریلوی کھلاڑیوں نے ان سے کہا کہ ’ڈکی سب ختم ہوگیا اور ہم میچ جیت چکے ہیں۔
انضمام  نے دوسری عظیم اننگز  2003 میں بنگلا دیش کے خلاف ملتان میں کھیلی۔ 138 رنز کی اس ننگز نے ان کے کرئیر کو نئی زندگی عطا کی۔ 2003 کے ورلڈ کپ میں وہ  صرف 16 رنز بنا سکے تھے جس کی وجہ سے  خاصے دباؤ میں تھے، مایوسی کے اس عالم میں وہ ریٹائرمنٹ لینے کا سوچ رہے تھے لیکن پھر یوں ہوا کہ اس ایک  اننگز سے ان کے کیرئیر کا احیا ہوا جس کے لیے قدرت نے ان کے اپنے شہر ملتان کا انتخاب کیا۔

عمران خان نے انضمام الحق کو ’نادر ٹیلنٹ‘ قرار دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان نے 261 رنز کا تعاقب کرنا تھا۔ 132 پر چھ کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ 205 پر آٹھویں کھلاڑی شبیر احمد آؤٹ ہوئے تو لگا کہ بنگلہ دیش ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی کامیابی کے بہت قریب آگیا ہے لیکن انضمام الحق نے عمر گل کے ساتھ مل کر سکور آگے بڑھایا۔ فتح میں جب چار رنز درکار تھے توعمر گل بھی آؤٹ ہوگئے۔ مہمان ٹیم کی امیدوں کا دیا پھر لو دینے لگا جو کچھ ہی دیر بعد اس وقت بجھ گیا جب پاکستان نے ایک وکٹ سے میچ اپنے نام کر لیا۔
اس ٹیسٹ میں بیٹسمین کی حیثیت سے ہی انضمام کے لیے کامیابی کا دروازہ نہیں کھلا بلکہ قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا در بھی وا ہوا کہ یہ میچ کپتان اور کھلاڑی کی حیثیت سے راشد لطیف کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔

شیئر: