Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میرے عزیز ہم وطنو!‘

25 مارچ 1969 کو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور ایوان صدر سے رخصت ہوگئے۔
ایوب خان بیمار ہوئے تو ان کے قریبی ساتھی یحییٰ خان کو ان کی صحت کے بجائے اقتدار پر قبضے کی فکر تھی۔ ایوب خان کو اپنے بچنے کی امید کم نظر آتی تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بیٹے گوہر ایوب سے کاغذ قلم مانگا اور کہا: ’میں بچ نہیں سکوں گا۔ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ مرنے کے بعد مجھے ریحانہ (آبائی گاﺅں) میں میری والدہ کی قبر کے پہلو میں دفن کرو گے۔‘
ایوب خان کی طبیعت کس طرح اور کس تقریب میں بگڑی اس کی روداد قدرت اللہ شہاب نے ’شہاب نامہ‘ میں کچھ اس طرح سے بیان کی ہے۔
’29 جنوری 1968 کے روز اردن کے شاہ حسین کراچی آئے ہوئے تھے۔ اسی شام راولپنڈی کے انٹر کونٹینینٹل میں ان کا عشائیہ تھا۔ صدر ایوب جب ہوٹل پہنچے تو ان کا رکھ رکھاﺅ اور چہرہ مہرہ ان کے معمول کے حساب سے نارمل نظر نہ آتا تھا۔
قدرت اللہ شہاب مزید لکھتے ہیں کہ ’کھانے کے بعد جب وہ پہلے سے تیار کردہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو غالباً ان کا عارضہ قلب ان کے رگ و پے میں کسی نہ کسی صورت میں رینگنا شروع ہو چکا تھا۔ ان کی طبیعت ہرگز ٹھکانے نہ تھی۔ یہاں تک کہ اپنی تقریر پڑھتے پڑھتے وہ بیک بار اس کے دو ورق الٹ گئے اور انھیں اپنی اس غلطی اور بے ربطی کا احساس تک نہ ہوا اور وہ بدستور آگے پڑھتے چلے گئے۔ دعوت ختم ہونے کے بعد جب وہ ایوان صدر واپس گئے تو اسی رات ان پر نہایت شدید ہارٹ اٹیک ہوا۔‘
اس صورت حال میں یحییٰ خان نے ایوان صدر پر قبضہ کر کے ایوب خان کا رابطہ بیرونی دنیا سے کاٹ دیا۔ گنتی کے چند لوگوں کے سوا کسی کو ایوان صدر آنے کی اجازت نہ تھی۔ سینئر وزیر خواجہ شہاب الدین کو گیٹ سے واپس بھیجا گیا تو انھیں شک ہوا کہ شاید نیا انقلاب آگیا ہے اور ایوب خان مقید ہیں۔
اور تو اور صدر کے معتمدِ خاص الطاف گوہر کو بھی اذن حضوری نہ ملا جنھیں بعد میں ایوب خان نے بتایا ’پہلی بار تکلیف ہوئی تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے لوہے کی گرم سلاخ ان کی چھاتی میں پیوست کر دی ہو۔‘
الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’ایوب خان: فوج راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھا ہے کہ یحییٰ خان نے اس خیال کے تحت کہ ان کے باس بیماری کے حملے سے جانبر نہ ہوسکیں گے حکومت کو ذاتی کنٹرول میں لے لیا تھا۔

ایوب خان نے کہا کہ 'مجھے میری ماں کی قبر کے پہلو میں دفنایا جائے' (فوٹو: گوہر ایوب کولیکشن)

گوہر ایوب ’ایوان اقتدار کے مشاہدات‘ میں بتاتے ہیں کہ ہانگ کانگ کے دورے کے دوران جب یحییٰ خان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئندہ صدر کون ہوگا؟ تو موصوف نے اپنی طرف اشارہ کیا۔
ایک میڈیکل بلیٹن صدر کی صحت کے بارے میں جاری کیا جاتا جس پر کوئی یقین نہ کرتا۔ ریڈیو اور ٹی وی صدر کی بیماری کے بارے میں گول مول خبریں جاری کرتے۔
نامور براڈ کاسٹر برہان الدین حسن کے بقول ’ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی نے سرکاری ہدایات کے مطابق پہلے خبر دی کہ صدر کو انفلوئنزا ہوگیا ہے، چند دن بعد وائرس سے ہونے والے نمونیے کی خبر دی گئی۔ جب وہ کئی ہفتے بستر علالت سے نہ اٹھ سکے تو کہا گیا کہ وہ  pulmonary embolism کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک مرض ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’جب عارضے کی بابت خبر ریڈیو پاکستان کے نیوز ڈیسک پر پہنچی تو سوال پیدا ہوا کہ اس بیماری کا اردو میں کیا ترجمہ کیا جائے۔  وزارت اطلاعات سے مشورہ کرنے کے بعد طے پایا کہ اس کا اردو میں ترجمہ نہ کیا جائے اور انگریزی لفظ ہی استعمال کیا جائے تاکہ سامعین کی اکثریت اس مہلک بیماری کی ماہیت کو قطعاً نہ سمجھ سکے۔‘

یحییٰ خان کو ایوب خان کی صحت کے بجائے اقتدار پر قبضے کی فکر تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)

مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ کی ایوب خان سے ملاقات کی تصویر اخبارات میں شائع کرائی گئی جس کا مقصد صدر کو تندرست ثابت کرنا تھا لیکن لوگوں کے ذہنوں سے شکوک رفع نہ ہوئے۔ اس کے بعد ٹی وی پر صدرکی رونمائی ہوئی پر بات نہ بنی۔ صدر کی بحالیِ صحت کا یقین عوام کو اسی وقت ہوا جب انھوں نے قوم سے خطاب کیا۔
 ایوب خان صحت یاب ہونے کے بعد یکم مئی 1968 کو پہلی دفعہ دفتر آئے۔ اس آمد کے بارے میں ان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ’وہ پہلے سے کمزور نظر آرہے تھے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ تھوڑا سا لڑکھڑائے ... دفتر میں ان کی واپسی ایک اذیت ناک مرحلے کا خاتمہ تھی۔‘
الطاف گوہر مزید لکھتے ہیں کہ ’میں فکر مند نہیں تھا‘ ایوب خان نے قدرے اطمینان سے کہا۔ جب سیکریٹری اطلاعات نے انھیں بتایا کہ لوگ تو بہت فکرمند تھے تو ایوب خان نے حیرت سے پوچھا کہ ’آخر کیوں! انتظامیہ اپنا کام معمول کے مطابق کر رہی تھی۔‘ لیکن ’انھیں کون بتاتا کہ انتظامیہ مکمل طور پر مفلوج ہو گئی تھی۔‘
ایوب خان آنے والے مہینوں میں لندن گئے اور ہیمر سمتھ ہسپتال سے اپنا طبی معائنہ کرایا جہاں پروفیسر گڈون نے ان کی صحت کو اطمینان بخش قرار دیا۔

صدر ایوب خان اپنے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے ساتھ (فوٹو: فلکر)

ایوب خان صحت یاب ہوگئے لیکن ان کا پہلے جیسا طنطنہ اور رعب نہ رہا جس نے فوج میں ان کے ممکنہ جانشین ہی نہیں ان کی حریفوں کے حوصلے بھی بلند کر دیے اور یہ نظر آنے لگا کہ آئندہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے اور اس کی مہم چلانے کی ان میں سکت نہیں رہی۔
اصغر خان کے بقول ’ان میں پہلی سی توانائی نہ رہی اور وہ اپنے ان مشیروں پر زیادہ انحصار کرنے لگے، جن کی اپنی حیثیت مشکوک تھی۔‘
اردو کے ممتاز نثر نگار مختار مسعود اپنی کتاب ’لوحِ ایام‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے 1968-69 کی سردیاں یاد آنے لگیں۔ بیماری کے حملے کے بعد مہینوں سے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں اپنے منصب کے تقاصے پورے کرنے سے قاصر تھے۔ عدم صلاحیت کی وہ کیفیت تھی جسے ناقابلیت ازروئے قانون کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ مگر ایسے قانون کو نافذ کرنے کے لیے قوم میں جس صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی کمی اپاہج گورنر جنرل غلام محمد کے زمانے میں بھی دیکھنے میں آئی اور معذور صدر ایوب خان کے زمانے میں بھی‘
مختار مسعود مزید لکھتے ہیں کہ ’جن لوگوں کی اہمیت اور اختیارات میں کسی کی بے چارگی میں اضافہ ہوجاتا ہے وہ کٹھ پتلی کے اس تماشے کو طول دینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی زور آور اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے قوم کا خادم اور ملک کا نجات دہندہ بن کر آجاتا ہے۔ یحییٰ خان کو ایوب خان کی جانشینی کا کوئی آئینی حق نہیں پہنچتا تھا مگر وہ اس مرتبے کو حاصل کرنے کی گہری خواہش رکھتے تھے اور ان کے دور اندیش ساتھی ان سے بھی زیادہ پرجوش تھے۔‘

25 مارچ 1969 کو ایوب خان نے کہا کہ 'بطور صدر یہ میری آخری تقریر ہے' (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

جسمانی ضعف اپنی جگہ لیکن اصل میں یہ سیاسی کمزوری تھی جس کے باعث ایوب خان کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور اس اعلان کے باوجود کہ وہ آئندہ صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، ان پر مخالفین کا دباﺅ بڑھتا چلا گیا اور آخر کار 25 مارچ 1969 کا دن آن پہنچا جب ان کے اقتدار کا سورج ڈھل گیا اور انھیں قوم سے خطاب میں یہ بات کہنی پڑی:
’میرے عزیز ہم وطنو! میں آپ سے صدر کی حیثیت سے آخری دفعہ خطاب کر رہا ہوں۔ ملک کو نہایت نازک صورت حال کا سامنا ہے....

شیئر:

متعلقہ خبریں