Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلگت بلتستان کے انتخابات اور نتائج

غیرسرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک اںصاف نو سیٹیں جیت چکی ہے۔ (تصویر : اے ایف پی)
ان سطور کے لکھے جاتے وقت گلگت بلتستان یا جی بی  کے انتخابات کو کور کرتے ہفتہ بھر ہو چلا ہے اور  انتخابی نتائج بھی واضح ہو چکے ہیں۔ یہ نتائج تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے اندازوں اور توقعات کے تقریبا مطابق ہیں-
اس بات کا امکان کم ہی تھا کہ جی بی کے عوام وفاقی حکومت کے علاوہ کسی پارٹی کو منتخب کریں گے۔ سڑک سے لے کر انٹرنیٹ اور گندم سے لے کر تیل تک یہ خطہ وفاق پر انحصار کرتا ہے ا س لیے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو اکثریت ملنے کا ہی تمام مبصرین اندازہ لگا رہے تھے۔ 
متوقع نتائج سے قطع نظر انتخابات نے قومی سطح پر توجہ حاصل کی۔ اس توجہ کی وجہ دو نوجوان رہنماؤں مریم نواز اور بلاول بھٹو کا جی بی میں انتخابی سرگرمیوں کو لیڈ کرنا تھا۔ بلاول نے خصوصاً شروع ہی سے انتخابی مہم کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
امیدواروں کا خود انٹرویو کیا، دور دراز علاقوں میں گئے اور باقی قیادت کو بھی ساتھ رکھا۔ انتخابی مہم کے لیے کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں براہ راست شرکت بھی نہیں کی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلاول نے پوری مہم کے دوران اپنے آپ کو ن لیگ کے بیانیے سے علیحدہ رکھنے کی بھی  کوشش کی بلکہ ان کے قرب و جوار سے کچھ ڈیل یا انڈرسٹینڈگ کے اشارے بھی دیے گئے۔
 
اسی طرح کے اشارے کچھ حکومتی وزرا کی طرف سے پیپلز پارٹی کی 'سمارٹ' سیاست کی تعریف میں  بھی دیے گئے۔ ان سب کے باوجود پی پی پی دوسرے نمبر پر ہی آ سکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فوری ڈیل کے امکانات بھی مخدوش ہو گئے ہیں- پی پی کے لیے یہ مایوسی البتہ نئی نہیں مگر اس کے باوجود ان کی قیادت وقت پڑنے پر جارحیت سے 'مصلحت' کی سیاست کا سفر فوری طے کر لیتی ہے۔ جب تک سندھ میں حکومت قائم ہے ان کی امید بھی قائم رہے گی۔ 

الیکشن کے نتائج تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے اندازوں اور توقعات کے تقریبا مطابق ہیں (تصویر : پی آئی ڈی)

 گلگت بلتستان میں مصلحت کا اثر تو عام طور پر جذباتی اور جارح مریم نواز تک بھی پہنچتا نظر آیا۔ نواز شریف جو پی ڈی ایم اور ن لیگ کے جلسوں میں اب ریگولر خطاب کرتے نظر آتے ہیں جی بی میں 12 کے قریب ہونے والے جلسوں سے غائب ہی رہے۔ مریم نواز نے بھی نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو انتخابی مہم میں دہرانے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی۔
یہ انتخابی مہم ان کے لیے وفاقی سطح پر متحرک رہنے کا موقع تھا اور ایک وفاقی رہنما کے طور پر پروفائل بنانے کی کوشش بھی۔ ان کو خود بھی نتائج کا اندازہ تھا مگر گلگت بلتستان اور اس سے پہلے سندھ اور بلوچستان میں بڑی مہارت سے انہوں نے اپنے قومی امیج پر محنت کی ہے۔ علاقائی لباس سے لے کر مقامی ایشوز اور حوالوں تک، ان کی تمام مصروفیات مستقبل کی سیاسی سرمایہ کاری کے طور پر ترتیب دی گئیں۔ نتائج سے ہٹ کر مریم نواز کا پہلا ہدف ان کی اپنی جماعت ہے اور وہ اب کم از کم ن لیگ پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط کرتی نظر آتی ہیں۔ 
پی ٹی آئی کچھ مقامی جوڑ توڑ اور کچھ مخالفین کی کمزوریوں کی وجہ سے اکثریت تو حاصل کرے گی مگر انتخابات میں حکومتی جماعت کی دیر سے آمد اور غیر سنجیدگی نے کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔ باوجود کئی ن لیگ کے امیدواروں کی شمولیت کے، پی ٹی آئی کو وزیر اعظم کی طرف سے صوبے کے وعدے اور وزرا کی طرف سے ترقیاتی کاموں کے بلند و بانگ دعوؤں پر انحصار کرنا پڑا۔ بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ان دعوؤں کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا امکان زیادہ روشن نہیں ہے۔ 

گلگت بلتستان کا خطہ اپنی سٹریٹجک اہمیت کے ساتھ ساتھ محب وطن اور تعلیم یافتہ لوگوں کا خطہ ہے۔(تصویر: اے ایف پی)

گلگت بلتستان کا خطہ اپنی سٹریٹجک اہمیت کے ساتھ ساتھ محب وطن اور تعلیم یافتہ لوگوں کا خطہ ہے۔ حیرانی اور بد قسمتی یہ ہے کہ اس دور میں بھی انٹرنیٹ اور فون کی سہولیات ناکافی اور نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہیں۔  انتخابی مہم کی رونق کا فائدہ یہ ضرور ہوا کہ وہ خطہ جو خاص طور پر صرف بیرونی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں ملکی رہنماؤں اور صحافیوں نے بھی ڈیرہ جمایا۔
امید ہے کہ پی ٹی آئی جس کو اب وزارت اعلی ملے گی وہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی نسبت بہتر وزیر اعلی کا انتخاب کرکے اپنے کچھ وعدے تو کم از کم پورے کرے گی۔

شیئر: