Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کے ساتھ روابط بحال کرنے کے اعلان پر فلسطین میں غم و غصہ

فلسطینی صدر محمود عباس نے مئی میں اسرائیل کے ساتھ روابط منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ روابط کو بحال کرنے کے اعلان پر فلسطین میں غم و غصے کا اظہار کیا  جارہا ہے۔ 
 اتھارٹی پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے اندرونی سطح پر کی جانے والی مصالحت کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے مئی میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے پر اس کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے ساتھ ساتھ روابط منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

 

فلسطینی اتھارٹی کے سول افیئرز کے وزیر حسین الشیخ نے منگل کو ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ’اسرائیل کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ دستخط شدہ معاہدوں پر عمل کرے گا، فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس سطح پر واپس بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں وہ 19 مئی سے پہلے تھے۔‘
حسین الشیخ نے فلسطین کے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کو ایک خط لکھا جس میں اسے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل اے) کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری کے حوالے سے پوچھا گیا، جس کے جواب میں اسرائیل نے اس پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دستخط شدہ معاہدے کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے کی جانے والی ’ڈیل آف دی سنچری‘ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت بڑی جیت ہے اور یہ فلسطینی قیادت اور عوام کی ثابت قدمی کا ثمر ہے۔‘
تاہم مبصرین نے اس غیر متوقع اعلان کے وقت پر سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ یہ فتح اور حماس کے درمیان مصر میں مذاکرات کے وقت ہوا ہے۔
حماس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اعلان مذاکرات کی ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف ہے۔
حماس کے قریب سمجھے جانے والے ایک سیاسی مبصر ابراہیم المدہون نے عرب نیوز کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کی ساتھ تعلقات کی بحالی متوقع تھی، لیکن جس طریقے سے یہ اعلان کیا گیا ہے وہ ’فلسطینی عوام کو نظر انداز کرنے کے برابر ہے۔‘

’اس فیصلے کے بعد (حماس اور فتح کے درمیان) مصالحت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

’اس فیصلے کے بعد (حماس اور فتح کے درمیان) مصالحت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔‘
فلسطینی ممبر پارلیمنٹ حسن خریشے بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہوں اسرائیلی پیغام کو اہم نہیں سمجھا اور کہا ہے کہ یہ پیغام ایک باقاعدہ سیاسی عزم کا اظہار نہیں کرتا۔
اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں فلسطینی امور کے مبصر گال برجر نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’محمود عباس کے گرد حسین الشیخ اور ماجد فراج جیسے نہیں چاہتے کہ مصالحت ہو۔ قاہرہ میں فتح اور حماس کے درمیان مذاکرات کے وقت ہونے والا یہ اعلان محض اتفاق نہیں ہے۔‘
اسرائیلی صحافی ڈینیئل سروتی نے کہا کہ ’فلسطینی اتھارٹی جو بائیڈن انتظامیہ کو پیغام دے رہی ہے کہ ان کے عہد صدارت میں فلسطین امریکہ کا بائیکاٹ نہیں کرے گا۔‘

شیئر: