Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میدان بدر‘ کا نام بدر پورے چاند کی وجہ سے پڑا؟

عربی میں چودھویں کے چاند کو ’بدر‘ کہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
وہ شوخ شوخ سی پنہاریاں کدھر کو گئیں
اداس کر گئی پنگھٹ کی رہ گزر مجھ کو
شعر اجیت سنگھ حسرت کا ہے جس سے حسرت ہی نہیں محرومی و مایوسی بھی جھلک رہی ہے۔  مگر ہم افسردہ ہونے والے نہیں کہ ہماری دلچسپی لفظ ’پنہاری‘ اور’پنگھٹ‘ میں ہے۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے یہ سمجھ لیں کہ ان دونوں لفظوں (پنہاری اورپنگھٹ) کا جُز اول ’پَن‘ لفظ ’پانی‘ کی تخفیف ہے۔ اس ’پَن‘ کو آپ پانی کے زور سے چلنے والی ’پَن چکی‘ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
جس طرح سونے سے سُنہار (سُنار) یا لوہے سے لوہار ہے، ایسے ہی پانی سے ’پنہار‘ بھی ہے، جو پانی بھرنے والے کو کہتے ہیں۔ جس کی تانیث ’پنہاری‘ ہے۔ اردو میں ’پنہار‘ کے مترادفات میں ’سقّہ‘ اور’بِہشتی‘ شامل ہیں۔
اب بات ہوجائے ’پنگھٹ‘ کی، جس کا دوسرا جُز’گھٹ‘ لفظ ’گھاٹ‘ کی تخفیف ہے۔ گھاٹ وسیع المعنی لفظ ہے، جو ’پھانسی گھاٹ‘ سے ’شمشان گھاٹ‘ تک بہت سی تراکیب کا حصہ ہے۔
 تاہم ہمارے پیشِ نظر دریا کنارے کا ’گھاٹ‘ ہے۔ جہاں پانی کم گہرا ہونے کی وجہ سے پنہار پانی بھرتے، دھوبی کپڑے دھوتے اور مانجھی کشتیاں لنگرانداز کرتے ہیں کہ مسافروں کو اترنے چڑھنے میں آسانی رہے۔
لفظ ’گھاٹ‘ کا تعلق ’گھٹنا‘ سے ہے جو’بڑھنا‘ کی ضد ہے۔ چوں کہ متعلقہ مقام پر پانی گھٹ (کم) ہوتا ہے اس لیے اسے ’گھٹ‘ اور’گھاٹ‘ کہتے ہیں۔
گھاٹ کی رعایت سے اردو میں متعدد محاورے رائج ہیں جیسے ’گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا‘۔ یہ محاورہ گھاگ اورجہاندیدہ شخص کے لیے برتے ہیں۔
’گھاٹ‘ کے ضمن میں سب سے مشہور محاورہ ’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘ ہے، جو آج کل سوشل میڈیا پر مشق ستم بنا ہوا۔ کسی ’بقراط‘ نے اس محاورے کے ’کتے‘ کو ’کتکہ‘ بتا کر اس کا درج ذیل خود ساختہ پس منظر بیان کیا ہے۔

لفظ ’گھاٹ‘ کا تعلق ’گھٹنا‘ سے ہے جو’بڑھنا‘ کی ضد ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پرانے وقتوں میں کپڑے گھاٹ پر دھوئے جاتے تھے اور کپڑوں کو صاف کرنے کے لیے دھوبی ایک بھاری بھرکم ڈنڈے کا استعمال کرتا تھا، جس کو ’کتکہ‘ کہا جاتا تھا۔ وہ ’کتکہ‘ گھاٹ پر نہیں رکھا جاتا تھا کیوں کہ کوئی اوراٹھا لے گا اور گھر لانے میں بے جا مشقت کرنی پڑتی، اس لیے دھوبی وہ ’کتکہ‘ راستے میں مناسب جگہ چھپا دیتا اور اگلے دن نکال کر پھراستعمال کر لیتا۔ اس طرح ’کتکہ‘ نہ گھر جا پاتا اور نہ گھاٹ پر رات گزارتا۔ اس صورتحال کے پیش نظر محاورہ بنا ’دھوبی کا کتکہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘۔ محاورے کا ’کتکہ‘ نئے دور میں بگڑ کر ’کتا‘ بن گیا۔‘
سچی بات تو یہ ہے کہ ’کتکہ‘ اور اُس کی وضاحت دونوں لائق التفات نہیں، اس لیے ہم کسی بحث میں الجھے بغیرعرض کریں گے کہ قدیم و جدید لغات میں محاورہ ’دھوبی کا کتا۔۔۔ الخ‘ بیان ہوا ہے، پھر یہ کہ اس محاورے کو میر تقی میر نے بصورت شعر بھی برتا ہے۔
کتوں کی جستجو میں ہوا روڑا باٹ کا
دھوبی کا کتا ہے کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا
1810ء میں لکھنؤ میں انتقال کرنے والے میرتقی میر نے زندگی کا بیشتر حصہ دلی میں گزارا تھا۔
دلی و لکھنؤ کو اردو زبان و بیان کے دبستان کا درجہ حاصل تھا، ایسے میں ناممکن تھا کہ میر خلاف محاورہ بات کہیں اوردہلوی یا لکھنؤی نقاد اسے اُچک نہ لیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو میر کے شعر نے محاورے کو سند کا درجہ دے دیا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد ’دلی کے روڑے‘ تھے۔ انہیں اس شہر کے لب و لہجے اور محاورے پر کامل عبور تھا۔ یہ محاوراتی زبان ان کے ترجمۂ قرآن کے علاوہ اُن کی نثر و نظم میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
ڈپٹی صاحب کا ایک مشہور شعر ہے
دنیا و دیں کے ربط کی رسی کو کاٹ کے
دھوبی کے کتے ہوگئے گھر کے نہ گھاٹ کے
میر کا انتقال 1810ء میں اور ڈپٹی نذیر کا انتقال 1912ء میں ہوا تھا، ان دونوں کے انتقال کی درمیانی مدت 102 سال ہے،اس طویل مدت میں محاورے میں ’کتا‘ اپنی جگہ موجود ہے مگر’کتکہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

’پرانے وقتوں میں کپڑے گھاٹ پر دھوئے جاتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

اب میرتقی میر کے انتقال کے 200 سال بعد 2010ء میں رحلت پانے والے ممتاز شاعر، نقاد اور بین الاقوامی ادب پاروں کے مترجم عبدالعزیز خالد کا شعرملاحظہ کریں
مغرب مجھے کھینچے ہے تو روکے مجھے مشرق
دھوبی کا وہ کتا ہوں کہ جو گھاٹ نہ گھر کا
ان حوالہ جات سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ 200 سال سے محاورہ اپنی اصل صورت میں موجود ہے اس میں تصرف یا ترمیم کی بات بے بنیاد ہے۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ محاورے کی ایک صورت اور ہے جس میں ’کتے‘ کا مقام ’گدھے‘ کو حاصل ہے۔ یعنی ’دھوبی کا گدھا گھر کا نہ گھاٹ کا‘، مگر ’گدھے‘ کو ’کتے‘ کے مقابلے میں پذیرائی نہیں ملی یوں ’کتے‘ کے بے توقیری اُس کے کام آگئی۔ 
دریا کنارے جس جگہ کپڑے دھوئے جاتے ہیں وہ دھوبی کی نسبت سے ’دھوبی گھاٹ‘ کہلاتا ہے۔ ’دھوبی‘ اسم صفت ہے جو ہندی لفظ ’دھوب‘ سے ماخوذ ہے۔ ’دھوب‘ کا مطلب ’دھونا‘ ہیں۔
عام طور پر’دھوبن‘ کو ’دھوبی‘ کی بیوی سمجھا جاتا ہے، جب کہ ایسا ہونا ضروری نہیں کہ ’دھوبن‘ کے معنی میں کپڑے دھونے والی کنواری اور بیاہی ہر دوخواتین شامل ہیں۔ جب کہ ’دھوبی‘ کی بیوی ’دھوبنی‘ کہلاتی ہے، جو ضروری نہیں کہ کپڑے بھی دھوتی ہو۔  
خیر دھوبی ہو یا دھوبن دُھلے کپڑے گھاٹ کے ساتھ رسیوں اور پتھروں پر سکھاتے ہیں اور بعض صورتوں میں میدان کو بھی کام میں لاتے ہیں۔ اب میدان کی رعایت سے ’جوش ملیح آبادی‘ کے مرثیے کا ایک پُرآہنگ شعر ملاحظہ کریں۔

میر تقی میر نے بھی اپنے شعر میں دھوبی کے گھاٹ کا ذکر کیا ہے (فوٹو: وکی پیڈیا)

پُتلے ہیں ہم حدید کے، پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں پہاڑ ہیں میدان جنگ کے
میدان جنگ سے یاد آیا کہ مدینہ منورہ کے نواح میں واقع ’میدانِ بدر‘ اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ مدینے آنے والے زائرین میں سے کچھ ہیں جو’میدانِ بدر‘ بھی جاتے ہیں کہ یہاں حق و باطل کا پہلا باقاعدہ معرکہ ہوا تھا۔
عربی میں چودھویں کے چاند کو ’بدر‘ کہتے ہیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق چاند کی چودہ تاریخ کو ایک وقت ایسا آتا جب اس میدان میں واقع کنویں میں چاند کا مکمل عکس دکھائی دیتا یوں اس نسبت سے اس میدان کو بھی ’بدر‘ کہا گیا۔  
ایک دوسری رائے کے مطابق پہاڑوں کے درمیان گِھرا یہ میدان قدرے گولائی لیے ہوئے ہے یوں اس ’بدر‘ کی طرح گول ہونے کی مناسبت سے اسے ’بدر‘ پکارا گیا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں