Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایل او سی پر مسلسل جھڑپیں، طلبہ کا مستقبل مخدوش

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 740 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں چھ لاکھ سے زائد آبادی مقیم ہے جہاں سینکڑوں سکولوں میں ہزاروں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
 ایل او سی کے ان علاقوں میں بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے قائم سکولوں میں سے 100 سے زائد سکول انڈیا اور پاکستان کے مابین فائرنگ اور گولہ باری سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں جہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا امن سے منسلک ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سٹیٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی ایم اے) کے مطابق رواں سال لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چار سکول اور تین کالج براہ راست بھارتی گولہ باری کا نشانہ بن چکے ہیں۔

 

ان ہی سکولوں میں ایک ایسا سکول وادی نیلم کے لائن آف کنٹرول پر واقع علاقے چلہانہ کا بھی ہے جہاں بچے خوف کے سائے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ گولہ باری اور فائرنگ کے ایام میں چلہانہ کے اس سکول کو بند کرکے تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا جاتا ہے جس سے بچوں کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے۔
 جب بچے سکول میں ہوں اور فائرنگ و گولہ باری شروع ہوجائے تو گھروں کو واپسی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ والدین ان لمحات میں بچوں کی واپسی اور خیریت جاننے کے لیے شدید اضطراب سے گزرتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر ہونیوالی گولہ باری اور فائرنگ سے رواں سال بھی درجن سے زائد بچے شدید زخمی اور ہلاک ہوئے ہیں۔
وادی نیلم کے گاؤں لالہ کے رہائشی غلام حسن کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں گولہ باری اور فائرنگ کس وقت شروع ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔ بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں گولہ باری شروع ہو جائے تو والدین بجائے مورچوں میں پناہ لینے کے سکولوں کی جانب اپنے بچوں کے لیے بھاگتے ہیں۔
’اس صورتحال میں سکول بند کر دیے جاتے ہیں جس سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا ہمارے بچوں کو دیگر علاقوں کے بچوں کی نسبت تعلیم کے کم مواقع ملتے ہیں۔ ‘

’اس کشیدہ صورتحال کیوجہ سے سکول جانے سے بھی خوف آتا ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

گاوں دودھنیال کی رہائشی لبنٰی فیاض چھٹی جماعت کی طالبہ ہیں۔ ان کا سکول رواں سال کے اوائل میں فائرنگ سے متاثر ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا سکول بھارتی گولہ باری سے بری طرح تباہ ہو گیا، جس کے بعد ان کی تعیلم تعطل کا شکار ہے۔
’تعلیم حاصل کرنا ہمارا بھی حق ہے اس کشیدہ صورتحال کی وجہ سے سکول جانے سے بھی خوف آتا ہے۔‘
انڈیا اور پاکستان کے مابین لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باعث نوے کی دہائی میں بھی ایک نسل کا تعلیمی سلسلہ بحال نہیں رہ سکا تھا جس سے لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں مقیم ہزاروں افراد تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گئے تھے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر تعلیم و سکولز بیرسٹر افتخار علی گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اپنے علاقے میں ایل او سی کے سکولوں کے ساتھ بنکرز بنا رہی ہے تاکہ بچوں کی حفاظت کی جا سکے۔

’ ایک طالبہ نے بنکر میں رہ کر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

’شدید گولہ باری اور فائرنگ کے باوجود لائن آف کنٹرول پر مقیم بچے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وادی لیپہ میں گولہ باری کے باوجود ایک طالبہ نے بنکر میں رہ کر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔‘
’لیکن پھر بھی انڈیا کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اور بہت سے طلبہ کا مستقبل خطرے میں ہے۔‘ 

شیئر: