Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فائز عیسیٰ کیس:’مانتا ہوں چھ رکنی بینچ فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا‘

سرینا عیسیٰ نے مقدمے کو سننے کے لیے 10 رکنی بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کی سماعت کے دوران ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے عدالت میں پیش ہو کر دلائل دیے ہیں۔
مسز فائز عیسیٰ  نے سوال اٹھایا کہ سات رکنی بینچ کے فیصلے کو چھ رکنی  بینچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ’میرے مقدمے کی سماعت کے لیے دس رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔'
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کی۔
 
کورونا کی دوسری لہر کے باعث محدود داخلے اور ایس او پیز کے ساتھ سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ عدالت میں پیش ہو کر روسٹرم پر آنے کی اجازت چاہی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منیر ملک صاحب دلائل کا آغاز کر لیتے۔ بیگم سرینا عیسیٰ نے کہا کہ 'میں متاثرہ فریق ہوں عدالت کے سامنے حقائق رکھنا چاہتی ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'آپ کے بہت سے معاون وکیل ہیں آپ کی بیٹی بھی ساتھ ہے۔ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ’میری بیٹی بیرسٹر ہے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو آج تفصیل سے سنیں گے۔
بینچ کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد انھوں نے اپنی گزارشات پیش کیں۔ متعدد مقامات پر انھوں نے بینچ کے ایک ایک رکن کو مخاطب کیا۔
سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 'سپریم کورٹ رولز کے مطابق جو بینچ فیصلہ کرتا وہی نظر ثانی بھی سنتا ہے۔ اس کیس میں فریق نہیں تھی۔ فریق نہ ہونے کے باوجود 81 مرتبہ میرا نام لیا گیا۔'
انھوں نے کہا ’میرے مقدمے کی سماعت کے لیے دس رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔'

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اس کیس میں وہ فریق نہیں تھی لیکن فریق نہ ہونے کے باوجود 81 مرتبہ ان کا نام لیا گیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس موقع جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'میں مانتا ہوں چھ رکنی بینچ سات رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ آپ کے نکات رجسٹرڈ کر لیے ہیں۔‘
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے چھ رکنی بینچ تشکیل دے کر غلطی کی ہے۔ اس موقع پر انھوں نے بینچ میں شامل تمام ججز کے نام لے کر ان سے ایک ہی سوال دہرایا کہ کیا چھ رکنی بینچ سات رکنی بینچ کے فیصلے کی نظر ثانی  سن سکتا ہے؟
قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا کہ 'چیف جسٹس پاکستان اس کیس میں فریق ہیں۔' ان کے اس بیان پر جسٹس عمر عطا بندیال برہم ہو گئے اور کہا کہ 'آپ چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگا رہی ہیں۔ آپ ہماری فیملی کا حصہ ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیس کی  سماعت میں چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگایا جائے۔ آپ ادارے اور اسکے سربراہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہیں۔ چیف جسٹس بینچ بنا سکتا ہے یہ ان کا آئینی اختیار ہے۔'
جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے برہمی پر سیرینا عیسی نے عدالت سے معافی مانگ لی اور کہا کہ میرا مقصد کسی معزز جج کی دل آزاری نہیں تھا۔ اگر کسی جج کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معزرت چاہتی ہوں۔'
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ' ہم بینچ کی تشکیل کیخلاف درخواست سن رہے ہیں۔ آپ نے جس انداز میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔'
سماعت کے دوران وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ ’اگر نو جج نظرثانی کیس سنے تو اس سے نقصان کیا ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا تاثر عوام میں رکھنا بار کاکام ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس پر بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک سینیئر وکیل کے منہ سے عدالت پر عدم اعتماد قابل افسوس ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا تاثر عوام میں رکھنا بار کاکام ہے۔
’جج خود عوام میں نہیں جاسکتے۔ احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں۔‘
ان کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں توازن رکھا۔ ’ایک طرف جج پر لگائے اعتراضات ختم کرکے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا۔ دوسری طرف احتساب کے عمل کو تحفظ دیا۔‘
بینچ نے کیس کی مزید سماعت جمعرات 10 دسمبر تک ملتوی کردی۔

شیئر: