Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس فائز عیسیٰ کیس: ’میں ان کو اڑا کر رکھ دوں گا‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کسی جج کے خلاف کوئی عداوت ہے نہ ہی کسی سے دشمنی ہے‘
پاکستان کی سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے کہا ہے کہ غیر اعلانیہ جائیداد کی معلومات حاصل کرنا جاسوسی نہیں ہے۔ انتظامیہ نے جج کے خلاف ملنے والی معلومات کی تصدیق کی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل کے دوران ایک نکتہ اٹھایا جس پر بینچ کی جانب سے انھیں یہ نکتہ تحریری طور پر دینے کی ہدایت کی گئی۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے بینچ کے ساتھ مکالمے کے نتیجے میں یہ نکتہ واپس لے لیا۔ جس پر جسٹس مقبول باقر نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’چونکہ اٹارنی جنرل نے اپنا نکتہ واپس لے لیا ہے اس لیے اس کو میڈیا میں رپورٹ نہ کیا جائے۔‘
اپنے دلائل کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کسی جج کے خلاف کوئی عداوت ہے نہ ہی کسی سے دشمنی ہے۔ ججز کے خلاف جو الزامات ہیں ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ جسٹس فائز عیسی کے خلاف الزامات کا جائزہ سپریم جوڈیشل کونسل نے لینا ہے کہ جائیدادیں ان کی ہیں یا نہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تاثر ہے کہ لندن جائیدادوں کا براہ راست تعلق جسٹس فائز عیسی کے ساتھ ہے۔‘
جسٹس فائز عیسی نے غیر ملکی جائیدادوں کے لیے رقم فراہم کی۔ تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔‘

’جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ زرینہ کھوسو کا نام پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

اٹارنی جنرل نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا عدالت عظمیٰ آرٹیکل 184/3کے مقدمے میں ریفرنس کے حقائق کا جائزہ لے سکتی ہے؟ کیا شوکاز نوٹس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہو سکتی ہے۔ جج نے جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام تسلیم کیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جوڈیشل کونسل نے دیکھنا ہے کہ جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ میں تین جائیدادیں خریدی گئیں۔ ایک جائیداد 2004 میں خریدی گئی جس کی 2011 میں تجدید ہوئی۔ دوسری جائیداد 2013 میں خریدی گئی۔  2004 میں جو جائیداد خریدی گئی وہ بہت اہم ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ زرینہ کھوسو کا نام پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں۔ 2011 میں جائیداد میں بیٹی سحر علی کا نام بھی شامل کیا گیا۔ 2013 میں جائیدادیں اہلیہ، بیٹی اور بیٹے ارسلان کے نام خریدی گئیں۔ جوڈیشل کونسل میں جج نے کہا میری جائیدادیں نہیں ہیں۔’

’دوسری سائیڈ نے انکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کے معاملے کو اڑا کر رکھ دیا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق جائیداد تسلیم کرنے سے حقائق درست ثابت ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ جائیدادیں جج کو گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیں یا نہیں؟ سوال یہ ہے کیا جائیدادیں بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہونا درست ہے؟ جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ پہلے یہ بتا دیں ریفرنس میں الزام کیا ہے؟
اٹارنی جنرل بولے ’معذرت چاہتا ہوں مجھے یہ بات پوچھنے سے پہلے بتانا چاہیے تھی۔ الزام یہ ہے کہ برطانیہ کی جائیدادیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جائیداد کرپشن کے پیسے سے بنی یا منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائی گئی۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ’خیال کیجیے گا دوسری سائیڈ نے انکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کے معاملے کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’میں بھی ان کو اڑا کر رکھ دوں گا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’جسٹس یحییٰ آفریدی کے سوال کا تفصیلی جواب آپ کل دیں گے۔‘ جس کے بعد سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: