Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب گورننس بھی ہو جائے!

اعظم سواتی نے کہا کہ ’موجودہ حالات میں پاکستان ریلوے نہیں چلا سکتے، کچھ حصے آؤٹ سورس کرنا پڑیں گے‘ (فوٹو: ٹوئٹر)
’موجودہ حالات میں پاکستان ریلوے نہیں چلا سکتے، کچھ حصے آؤٹ سورس کرنا پڑیں گے‘، گذشتہ روز نئے نکور وزیر ریلوے اعظم سواتی کا یہ بیان سن کر ایک جھٹکا سا لگا کیونکہ دو سال شیخ رشید صاحب ہر ہفتے کے روز پریس کانفرنس کرکے قوم کو نئی ٹرینیں چلانے کی نوید سنایا کرتے تھے۔ کابینہ میں حالیہ ردو بدل کے بعد وزرا اپنے اپنے قلمدان سنبھالنے سے فارغ ہوئے تو اپنے اپنی وزارت کے حوالے سے میڈیا میں بیانیہ بنانے میں جت چکے ہیں۔
میڈیا میں بیانیہ کے حوالے سے اگر پرکھا جائے تو پی ٹی آئی حکومت سیاسی طور پر نسبتاً محفوظ اور مطمئن نظر آتی ہے۔ پنجاب اور وفاق میں محدود اکثریت کے بعد  حکومت کو شروع سے ’ایک صفحے‘ کا  سہارا بھی رہا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن باوجود بھرپور کوشش کے عوام میں ایک احتجاجی تحریک کا جوش پیدا کرنے میں خاطر خواہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔
نیوکلیئر آپشن کے طور پر اپوزیشن استعفے دینے کے دعوے کر رہی ہیں مگر دوسری طرف حکومتی وزرا اتنے مطمئن ہیں کہ اب تو طعنوں پر اتر آئے ہیں۔ سینیٹ الیکشن ایک ڈیڈ لائن بن چکے ہیں جن میں حکومت کی اکثریت کے بعد قانون سازی کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔
پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی مگر فی الحال یہ کہنا مناسب ہو گا حکومت سیاسی طور پر مضبوط پوزیشن میں ہے اور سینیٹ انتخابات کے بعد مضبوط تر ہو جائے گی۔ گلگت بلتستان کے الیکشن نے بھی حکومت کی ہمت بندھائی ہے جبکہ پی ڈی ایم کے جلسے اور سیاسی سرگرمیاں زبردستی اور بھرتی کے لگ رہے ہیں۔
 اسی دوران معاشی اشاریے مثبت صورتحال دکھا رہے ہیں جس میں مزید بہتری کا امکان ہے۔  سیایسی اور معاشی طور پر سنبھلنے کے بعد ایک توقع اور ڈیمانڈ  پہلے سے بڑھ کر سامنے آتی ہے اور وہ ڈیمانڈ ہے گورننس کی۔  ساری کابینہ بشمول وزیراعظم  اطلاعات اور ابلاغ کے میدان میں موثر اور کامیاب ہے جس کی بعد مطالبہ یہ ہی سامنے آتا ہے کہ اب گورننس بھی ہو جائے 
جی ہاں حکومت بہت محنت کر رہی ہے، یہ حکومتی جواب ضرور ہوگا مگر حکومت کی گورننس اسی طرح کمزور ہے جس طرح اپوزیشن کی سیاست کمزور ہے۔ حکومت کی گورننس بھی اس طرح بے سمت ہے جس طرح اپوزیشن کی سیاست بے سمت ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا کام صرف سیاست ہے مگر حکومت کا کام سیاست اور گورننس دونوں ہے۔ عوام اب انتظار میں ہیں کہ گورننس کا قلعہ کب سر ہوگا۔
کابینہ میں روز بروز ہونے والے تبدیلیوں پر بہت بات ہو چکی۔ یہ تبدیلیاں اس وقت پیش نظر نہیں ہوں گی اگر ان کے ساتھ گورننس میں بھی تبدیلی آئے۔ چینی مثال کہ مطابق بلی چاہے سفید ہو یا سیاہ اس سے فرق نہیں پڑتا، فرق تو صرف اس بات سے پڑتا ہے کہ وہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔

سیاسی  میدان میں حکومت کا مقابلہ اپوزیشن سے ہوتا ہے۔ مگر عوامی میدان میں یہ مقابلہ عوامی مسائل سے ہوتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

عوام کا معیار زندگی براہ راست تین شعبوں سےمتاثر ہوتا ہے اور وہ ہیں تعلیم، صحت اور پولیس۔ یہ تینوں شعبے صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں جن میں سوائے سندھ کے پی ٹی آئی بر سر اقتدار ہے۔
کیا یہ تینوں شعبے ن لیگ کی حکومت  کے دور سے بہتر ہیں؟ پی ٹی آئی کے اپنے ہمدرد بھی شاید اس کا جواب اثبات میں دینے مشکل محسوس کریں۔ حتیٰ کے خیبر پختونخوا میں دوسرا دور پہلے کے مقابلے میں دبا دبا اور تھکا تھکا ہے۔ پنجاب میں گورننس کی عدم موجودگی پر تو صفحات کے صفحات سیاہ  کیے جا سکتے ہیں ۔
پچھلے ہفتے سیایسی بحثوں کے ساتھ دو خبریں ریڈار کے نیچے ہی گزر گئیں۔ ایک پشاور ہسپتال میں آکسیجن کی کمی سے مریضوں کی ہلاکت اور دوسرے بنی گالہ میں پنجاب کے استادوں کا اجتجاج اور ان پر لاٹھی چارج۔
اس میں سردی کے بڑھنے کے ساتھ گیس کی کمی کو بھی شامل کر لیجیے۔ پولیس کی کارکردگی تو لاہور واقعے کے بعد سے سب کے سامنے ہے۔ اشیا کی قیمتوں کو الگ پر لگے رہتے ہیں۔ ایک طرف کمی آتی ہے تو دوسری طرف بھر پور اضافہ ہو جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ہیں امیدیں، وعدے اورتسلیاں مگر حقیقی بہتری کا انتظار ہے۔
سیاسی  میدان میں حکومت کا مقابلہ اپوزیشن سے ہوتا ہے۔ مگر عوامی میدان میں یہ مقابلہ عوامی مسائل سے ہوتا ہے۔ اور یہ مقابلہ ایک ہی صورت سے جیتا جا سکتا ہے اور وہ ہے گورننس۔ گورننس کے لیے نیت بھی چاہیے اورساتھ اہلیت بھی، اور پھر اس کے بعد مستقل مزاجی بھی۔  سیایسی میدان میں حکومت کے کامیاب معرکوں کے بعد لوگ یہی سوال کر رہے ہیں، اب گورننس بھی ہو جائے  

شیئر: