Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیل کی پہلی کھیپ جس نے سعودی عرب کی تاریخ بدل ڈالی

1945 میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی ملاقات سے تیل کے معاہدوں کو تقویت ملی۔ فوٹو گیٹی
تیل کی دریافت سے پہلے سعودی عرب کی معیشت نہایت کمزور اور خستہ حالی کا شکار تھی۔ مملکت کی معیشت حجاج کرام کے ساتھ منسلک ہونے کے علاوہ زیادہ زراعت اورتجارت پر منحصر تھی۔
الرجل ویب سائٹ کے مطابق 1908 میں خلافت عثمانیہ کے زمانے میں دمشق سے مدینہ منورہ تک ریلوے لائن اور دیگر تعمیری کام ہوئے تھے لیکن اس کے علاوہ باقی خطہ خستہ حالی کا شکار تھا۔
الملک عبدالعزیز کے بادشاہ بننے کے بعد ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ  کسی طرح یہ خطہ ترقی کر جائے اور اس کے تمام شعبے مستحکم ہو جائیں۔
نئے بادشاہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نئے وسائل کی تلاش کا فیصلہ کیا اور پھر سمندر سے وہ کچھ برآمد ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

سمندر سے نکلنے والے تیل کی امید

بحرین میں سنہ 1932 میں تیل کی دریافت کے بعد شاہ عبدالعزیز کو امید تھی کہ سعودی عرب کی زمین میں سے بھی تیل نکل آئے گا۔
اینگلو فارس آئل کمپنی نے سنہ 1908 میں شمال مغربی فارس کے پہاڑوں میں سلیمان مسجد کے قریب تیل دریافت کیا تھا، اور القصف میں الاحسا کے مشرقی ساحل پر تیل کی متعدد افواہیں تھیں۔ ان سب عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے الملک شاہ عبد العزیز نے تیل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
شاہ عبد العزیز ابتدا میں برطانوی حکومت کے پاس گئے اور تیل کے ذخائر کی کھوج کے لیے فنڈ سمیت اقتصادی ترقی کے لیے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی مالی مدد کی درخواست کی۔

تیل کی دریافت سے قبل مملکت کی معیشت حجاج کرام سے منسلک تھی۔ فوٹو اے ایف پی

برطانیہ نے یہ کہتے ہوئے بادشاہ کی مدد کرنے سے انکار کردیا کہ یہ وقت مالی مہم جوئی کے لیے موزوں نہیں ہے اور یہ کہ برطانیہ اس وقت ایسے ملک میں رقم ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو عالمی سطح پر شہرت نہیں رکھتا۔ 
اس کے بعد سعودی فرمانروا نے امریکہ کا دورہ کیا۔ 29 مئی 1933 کو سعودی عرب اور سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا نامی امریکی کمپنی کے مابین تیل کی تلاش کے لیے معاہدہ ہوا۔ انتظامی امور چلانے کے لیے 8 نومبر کو ایک ماتحت کمپنی قائم کی گئی جس کا نام ’کیلی فورنیا عرب سٹینڈرڈ آئل کمپنی‘ رکھا گیا۔

کالے سونے کی تلاش 

سب سے پہلے شروعات سعودی عرب کے شہر دمام سے کی گئی جہاں 1935 میں پہلا کنواں کھودا گیا۔ توقع کے بر خلاف انتہائی محدود مقدار میں گیس اور تیل کی موجودگی کے شواہد ملے۔
سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا کی ناکامی کے بعد 1936 میں ٹیکساس آئل کمپنی نے 50 فیصد رعایت کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ پانچ سال کے طویل عرصے میں ہر طرح کی امید دم توڑنے لگی۔
لیکن 4 مارچ 1938 کو ہر چیز یکسر بدل گئی۔ اس دن کنویں سے 1.5 کلومیٹر کی گہرائی پر ایک ہزار 585 بیرل یومیہ تیل نکلنا شروع ہو گیا۔
اس کے فوراً بعد اس خطے میں اور بھی بہت ساری دریافتیں ہوئیں۔ 

پہلی کھیپ: تیل کا پہلا سودا اور ارامکو کی تاریخ کا اہم موڑ

یکم مئی 1939 کو بادشاہ عبد العزیز سعودی عرب کی جانب سے راس تنورا سے برآمد ہونے والے خام تیل کی پہلی کھیپ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر ٹینکر ’ڈی جے سکوفیلڈ‘ پر سوار تھے۔


1933 میں سعودی عرب اور امریکی کمپنی کے مابین تیل کی دریافت کا معاہدہ ہوا۔ فوٹو آرامکو

یہ اس پائپ لائن کی تکمیل کے ساتھ ہے جو دمام فیلڈ سے لے کر راس تنورا کی بندرگاہ تک پھیلی ہوئی  ہے جس کی لمبائی 69 کلومیٹر ہے۔ اس مقام پر شاہ عبد العزیز نے تیل کے ٹینکر کو سعودی خام تیل کی برآمد کا آغاز کرنے اور اس کی پہلی کھیپ کو دنیا کے سامنے لانےکے لیے معاہدہ کیا تھا۔
1944میں تیل کی دریافت کے بعد کمپنی کا نام ’کیلی فورنیا عرب سٹینڈرڈ آئل کمپنی‘ سے تبدیل کر کے عرب امریکی آئل کمپنی (آرامکو) کر دیا گیا۔ 
یہ عرصه انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دوران سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اقتصادی تعلقات کی تاریخ میں تیل کے پہلے تجارتی معاہدے کا افتتاح بھی ہوا۔
14 فروری 1945 کو سعودی بادشاہ اور امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کے مابین ہونے والی تاریخی ملاقات سے سعودی عرب اور امریکہ کے مابین معاشی اور تیل کے معاہدوں کو تقویت ملی۔
1950 کے آغاز تک سعودی حکومت نےآرامکو کے منافع کا 50 فیصد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور پھر بتدریج 1973 میں کمپنی کا 25 فیصد حاصل کیا جو اگلے سال 60 فیصد تک پہنچ گیا ۔
1980 میں سعودی حکومت نے آرامکو کمپنی کا کنٹرول باضابطہ طور سنبھال لیا۔ اس کے بعد ایک نئی کمپنی آرامکو سعودی کا قیام ہوا جس کے سربراہ علی بن ابراہیم النعمی تھے۔
1984 میں وہ کمپنی کے پہلے سعودی صدر بنے۔ پھر 1988 میں سعودی آرامکو کے پہلے صد اور اس کے سی ای او کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

پہلا کنواں 1935 میں دمام شہر میں کھودا گیا۔ فوٹو آرامکو

تیل اور مالی بحالی

سنہ 1950 میں کمپنی نے دنیا کی طویل ترین عرب پائپ لائن کا منصوبہ مکمل کیا جس کی لمبائی ایک ہزار 212 کلومیٹر ہے۔ یہ پائپ لائن بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ بحیرہ روم کے ساتھ سعودی عرب کے مشرقی خطے کو جوڑتی ہے، اس کی وجہ سے یورپ کو تیل برآمد کرنے میں وقت اور لاگت کو کم کیا گیا ہے۔
آرامکو نے خود کو صرف زمینی دریافتوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ یہ سمندر میں بھی تیل تلاش کرنے لگی۔ اس کے دو سال بعد 1951 میں سفانیہ کے ذخیرے کا پتہ چلا جو دنیا کا سب سے بڑا غیر ملکی تیل کا میدان ہے۔
1958 میں آرامکو کے خام تیل کی پیداوار 10 لاکھ بیرل سے تجاوز کر گئی تھی اور 1962 تک خام تیل کی مجموعی پیداوار 5 بلین بیرل تھی۔
تیل کی برآمدات کا خالص محصول 1972 سے 1978 کے دوران چار گنا ہوا جو 19.3 بلین ڈالر سے بڑھ کر 85.1 بلین ڈالر ہوگیا۔
اسی عرصہ میں ملک کی پیداوار میں صرف 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1981 تک پہلی بار راس تنورا میں آف شور ٹرمینل سے خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی کھیپ ایک سال میں ایک ارب بیرل سے تجاوز کر گئی تھی۔
سعودی عرب آج دنیا میں تیل پیدا کرنے والے تین بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ اس وقت کے بادشاہ کی حکمت اور مہارت نے سعودی عرب کو مالی، معاشی اور سیاسی طور پر تیل پیدا کرنے والا ایک مضبوط ملک بنا دیا۔

شیئر: