Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیلنڈر کہانی: جب لوگوں کی زندگی سے دس دن غائب ہو گئے

’calendar‘ کی اصل لاطینی زبان کا ’calendae‘ ہے۔ فوٹو سوشل میڈیا
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں  
دیوار سے پرانا کیلِنڈر اتار دے 
کیلِنڈر اتارنا بھی خوب رہا کہ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ آخری بار کیلِنڈر آویزاں کب کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ موبائل فون کے نت نئے فیچرز نے دیگر چیزوں کی طرح دیوار پرجھولتے کیلِنڈر سے بھی بے نیاز کر دیا ہے۔ نتیجتاً چار ورقی اور چھ ورقی کیلِنڈر کو گاہے پلٹ کر دیکھنے کی عادت اور پسندیدہ ’ورق‘ کی باری آنے تک مہینوں انتظار کی لذت دونوں ہوا ہو گئے۔ اس حقیقت کے ساتھ آگے بڑھتے اور کیلِنڈر کی تاریخ پر بات کرتے ہیں۔ 
انگریزی لفظ ’calendar‘ کی اصل لاطینی زبان کا ’calendae‘ ہے، جب کہ خود ’calendae‘ کا تعلق اُس call (پُکار) سے ہے جو چاند نظر آنے پر ہرماہ پہلی تاریخ کو دی جاتی تھی۔ ایک دوسرے نقطۂ نظر کے مطابق’کیلِنڈر ‘ لفظ کیلینڈریم (calendarium‘) سے نکلا ہے۔ لاطینی زبان میں ’کیلینلڈریم‘ اُس کھاتہ رجسٹر کو کہتے ہیں جس میں لین دین کے ماہانہ حسابات درج ہوں۔ 
 انسان نے زمانہ قدیم ہی میں چاند سورج کی گردش اور موسمی تغیرات کی بنیاد پر ’کیلِنڈر‘ وضع کر لیے تھے۔ بنیادی طور پر کیلِنڈر چار طرح کے ہیں۔ قمری (lunar)، شمسی (solar)، قمری شمسی (lunisolar) اورموسمی (seasonal) کیلِنڈر۔
دنیا میں رائج درجنوں کیلِنڈر انہی چار اقسام پر مشتمل ہیں۔ یوں تو ان کیلنڈروں کی اکثریت میں ہفتہ سات دنوں کا ہے تاہم بعض کیلِنڈر ایسے بھی ہیں جن میں ’ہفتہ‘ پانچ، چھ، آٹھ، نو، دس اور تیرہ  دنوں کا ہوتا ہے۔ 
کیلنڈروں کے اس ہجوم میں دو کلینڈر سب میں نمایاں ہیں۔ ایک ’گریگورین کیلِنڈر‘ جسے عیسوی کیلِنڈر بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا ’ہجری کیلِنڈر‘ جو اسلامی کیلِنڈر کہلاتا ہے۔ ان میں پہلا شمسی اور دوسرا قمری کیلِنڈر ہے۔ 
 اب سے کچھ دنوں بعد نیا گریگورین (عیسوی) سال طلوع ہونے کو ہے، اس لیے اُس پر بات کرتے ہیں اور’اسلامی کیلِنڈر ‘ کا تذکرہ نئے ہجری سال کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ 

’گریگورین کیلِنڈر‘ کو عیسوی کیلِنڈر بھی کہا جاتا ہے۔ فوٹو: آئی سٹاک

گریگورین کیلِنڈر اصلاً ’جیولین کیلِنڈر‘ کی ترمیم شدہ شکل ہے جب کہ جیولین کیلِنڈر’قدیم رومن کیلِنڈر ‘ میں اصلاح کا نتیجہ ہے۔ 
قدیم یونانی کیلِنڈر  سے اخذ شدہ قدیم رومن کیلِنڈر 10 ماہ پر مشتمل تھا۔ اس میں 6 ماہ 30 دن کے اور 4 ماہ 31 دن کے تھے۔ یہ کیلِنڈر آمد بہار کے ساتھ مارچ سے شروع ہوتا اور دسمبر کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا تھا۔ دسمبر کے بعد مسلسل دو ماہ شمار نہیں کیے جاتے تھے۔
یوں اس کیلِنڈر میں دنوں کی کل تعداد 306 تھی۔ اس رومن کیلِنڈر کے ابتدائی چار ماہ کے نام دیوی دیوتاؤں سے منسوب تھے جب کہ باقی چھ ماہ کے نام عددی تھے۔ ان مہینوں کے نام درج ذیل ہیں: 
1۔ مارچ 2۔ اپریل 3۔ مئی 4۔ جون 5۔ کوئنتیلس 6۔ سکستائیلس 7۔ ستمبر8۔ اکتوبر9۔ نومبر 10۔ دسمبر۔ 
713 قبل مسیح میں روم کے بادشاہ نوما پمپیلیوس (Numa Pompilius) نے اس کیلِنڈر میں اصلاح کی اور دسمبر کے بعد شمار نہ کیے جانے والوں دو مہینوں کو جنوری اور فروری کے نام سے متعارف کروایا۔ یوں اس کیلِنڈر میں مہینوں کی تعداد 12 اور دنوں کی تعداد 355 ہوگئی۔ تاہم سال کا آغاز مارچ ہی سے ہوتا رہا نتیجتاً فروری سال کا آخری مہینہ قرار پایا۔ 
 45 قبل مسیح میں رومی حکمران ’جولیس سیزر‘ نے قدیم رومن کیلِنڈر میں اہم ترامیم کیں۔ یوں سال کا دورانیہ بڑھ کر365 دن اور چھ گھنٹے ہوا جب کہ سال کا آغاز مارچ کے بجائے جنوری سے قرار پایا اور پانچویں مہینے کوئنتیلس (Quintilis) کا نام بدل کرجولیس کے نام ’جولائی‘ کردیا گیا۔ان اہم ترمیمات کے بعد اس کیلِنڈر کو جولیس سیزر کی نسبت سے ’جیولین کیلِنڈر ‘ پکارا گیا۔ 
 جولیس سیزر کے بعد برسراقتدار آنے والے ’آگسٹس سیزر‘ نے اپنے پیش رو کی پیروی میں چھٹے مہینے سکستائیلس (Sextilis) کا نام بدل کر اپنے نام پر ’اگست‘ کر دیا۔ 

قدیم برطانوی کیلنڈر۔ فوٹو: وکی پیڈیا

 سال کا آغاز جنوری سے ہونے اور دو مہینوں کے بدل جانے پر نہ صرف عددی نام والے مہینوں کی تعداد 6 سے گھٹ کر4 ہوگئی بلکہ ان ناموں کی معنویت بھی متاثر ہوگئی۔ یوں نویں، دسویں، گیارہویں اوربارہویں مہینے کا نام بالترتیب ستمبر، اکتوبر، نومبراوردسمبر ہوگیا۔  
’جیولین کیلِنڈر ‘ پندرہ سو سال تک کار آمد رہا یہاں تک اس میں پائے جانے والے چند منٹ کے فرق نے ڈیڑھ ہزار سال کی مدت میں دس دنوں کا فرق پیدا کردیا۔ اس فرق کو ختم کرنے کا بیڑا پوپ گریگوری نے اٹھایا۔ چنانچہ 1572ء میں اکتوبر کے مہینے سے دس دن خارج کر دیے گئے نتیجتاً 5 اکتوبر کے بعد اگلا دن 15 اکتوبر کا طلوع ہوا۔ یوں لوگوں کی زندگیوں سے اچانک ہی 10 دن غائب ہو گئے۔ اس اصلاح شدہ کلینڈر کو پوپ گریگوری کی نسبت سے ’گریگورین کیلِنڈر ‘ کہا گیا۔    
کیلِنڈر کی کہانی کے اختتام پر اب رائج الوقت مہینوں کے ناموں کا مختصر جائزہ لیں گے۔  
جنوری: اس ماہ کا نام آغاز اور تبدیلی کے یونانی دیوتا جینس (Janus) کے نام پرہے۔’جینس‘ کے دوچہرے ہیں ایک سامنے اور دوسرا سر کے پیچھے کی طرف گویا یہ آنے اور جانے والے سال پر نظررکھے ہوئے ہے۔ 
فروری: اس ماہ کے نام کے حوالے سے متعدد نظریات ہیں جن میں سے ایک کے مطابق فرروی کی اصل لاطینی لفظ فیبرم (februum) یعنی پاکیزگی ہے۔ روایت کے مطابق سال کے اس آخری مہینے میں بہار شروع ہونے سے پہلے ایک میلہ لگتا تھا جس میں پاکیزگی اور صفائی حاصل کرنے کے لیے مختلف رسومات ادا کی جاتی تھیں۔  
مارچ : تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے مارچ سال کا پہلا مہینہ مانا جاتا تھا۔ اس مہینے کا نام جنگ کے یونانی دیوتا مارٹیس (Martius) کے نام پر رکھا گیا۔ اس کی دوسری صورت مارس اور مارچ ہے۔  

رومی حکمران ’جولیس سیزر‘ نے قدیم رومن کیلِنڈر میں اہم ترامیم کیں۔ فوٹو سوشل میڈیا

اپریل: اس ماہ کے نام کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ایک رائے کے مطابق اس نام کی اصل لاطینی لفظ اپریلس (Aprilis) ہے جس کے معنی ’کُھلنا‘ ہیں۔ چوں کہ اس ماہ میں سردی کے متواتر کئی مہینوں کے بعد آسمان کُھل جاتا ہے اور سورج خوب چمکتا ہے،اس لیے اس ماہ کو ’اپریل‘ کہا گیا۔ 
مئی: اس مہینے کا نام زمین اور عورتوں کی زرخیزی کی دیوی مایا (Maia) کے نام پر رکھا گیا۔ یونانی اصنامیات کے مطابق یہ دیوتا اٹلس کی بیٹی اور’ہرمیس‘ کی ماں تھی۔ 
جون: اس مہینے کا نام یونانی دیوتا ’جوپیٹر‘ کی بیوی اور شادی بیاہ کی دیوی جونو (Juno) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ چوں کہ قدیم زمانے میں اس ماہ میں شادی بیاہ کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں اس لیے اسے ’جونو‘ کی نسبت سے ’جون‘ کہا گیا۔ 
جولائی: پہلے لکھ آئے ہیں کہ یہ قدیم رومن  کلینڈر کا پانچواں مہینہ ’کوئنتلیس‘ تھا۔ جولیس سیزر نے اس مہینے کا نام بدل کراپنے نام رکھا دیا، یوں یہ مہینہ ’جولائی‘ کہلانے لگا۔ 
اگست: جولیس کی پیروی میں رومی حکمران ’آگسٹس سیزر‘ نے ’سکستائیلس‘ نامی مہینے کانام بدل کر اپنے نام پر رکھا دیا یوں یہ مہینہ اُس کی نسبت سے’اگست‘ کہلایا۔ 
ستمبر: یوں تو ’ستمبر‘ کا مطلب ساتواں مہینہ ہے مگر قدیم رومن کیلینڈر میں جولیس سیزر کی جانب سے ترمیمات کے بعد یہ ’ساتواں مہینہ‘ نویں نمبر پر آ گیا۔ 
اکتوبر: اکتوبر کو octa (آٹھ) سے نسبت ہے۔ قدیم رومن کلینڈر میں یہ آٹھویں مہینہ تھا اس لیے اسے اکتوبر کہا گیا، مگرستمبر کی طرح اصلاحات کی زد میں آکر یہ دسواں مہینہ بن گیا۔ 
نومبر: نومبر کے معنی ’نواں مہینہ‘ ہے، اس کے ساتھ بھی ستمبر اور اکتوبروالا معاملہ ہوا نتیجتاً یہ بھی اپنی جگہ سے کھسک کر گیارہویں نمبر پر پہنچ گیا۔ 
دسمبر: دسمبر کو دس سے نسبت ہے۔ قدیم رومن کلینڈر میں یہ دسواں اور آخری مہینہ تھا۔ جولیس کی ترمیمات کے بعد اس کا نمبر تو آخری ہی رہا مگر یہ دسویں سے بارہویں نمبر پرآ گیا۔ 
آخری میں اس دعا کے ساتھ  سال نو کی پیشگی مبارکباد قبول کریں:
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے  
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے 

شیئر: