Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آنکھ منہ ناک کان میں کھٹمل

بحث کے لفظی معنی ’کرید نے‘ اور اصطلاحی معنی تحقیق و جستجو کے ہیں۔ فوٹو فری پک
ہنر ہے شاعری، شطرنج شوق ہے میرا 
یہ جائداد مظفر ملی ہے ورثے میں
اثاثے ’ڈکلیئر‘ کرتا یہ شعر خوش الحان شاعر جناب مظفر وارثی کا ہے۔ شعر میں لفظ ’شطرنج‘ اور ’جائداد‘ سے بحث کا سامان موجود ہے تاہم اس سے پہلے خود لفظ ’شعر‘ اور’بحث‘ پر بات ہو جائے۔ 
’شعر‘ کا تعلق ’شعور‘ سے ہے۔ ادراک، وجدان یا رجحان کی بدولت اپنے خیالات بصورتِ نظم بیان کرنے کا ’شعور‘ رکھنے والا شخص ’شاعر‘ اور اُس کا کلام ’شعر‘ کہلاتا ہے۔ 
جہاں تک ’بحث‘ کی بات ہے تو اس کے لفظی معنی ’کرید نے‘ اور اصطلاحی معنی تحقیق و جستجو اور چھان بین کے ہیں۔
’بحث‘ کی جمع ’بحوث‘ اور’ابحاث‘ ہے۔ ان دونوں لفظوں کو ’تحقیق‘ کے معنی کے ساتھ سعودی عرب کے دو مختلف اداروں کے ناموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
1۔ مركز الملك عبداللہ للدراسات والبحوث البترولیۃ (King Abdullah Petroleum Studies and Research Center)
2۔ مركز الملك سلمان لابحاث الاعاقۃ (King Salman Center for Disability Research) 
عام مشاہدہ ہے کہ لوگ قلمی یا زبانی ’بحث‘ کے دوران جذبات سے مغلوب ہو کر مشتعل ہوجاتے اور بد زبانی پر اُتر آتے ہیں۔ یوں اردو میں ’بحث‘ کے معنی میں تُو تکرار اور جھگڑا بھی شامل ہے۔ پھر اس پس منظرکے ساتھ اردو میں ’بحثنا‘ اور ’بحثا بحثی‘ جیسے الفاظ پیدا ہوئے اور مجادلہ، مناظرہ اور مناقشہ اس کے مترادفات  قرار پائے۔  
اب شطرنج کی بساط بچھاتے ہیں۔ لفظ ’شطرنج‘ کی اصل سنسکرت کا ’چترنگ‘ ہے۔ جس کے معنی ’چار عضو‘ ہیں۔ اسے چترنگ کہنے کی وجہ  ہاتھی، گھوڑوں، رُخ اور پیادوں پر مشتمل فوج کے چار حصے ہیں جن کی مدد سے شاہ و وزیر جنگ لڑتے ہیں۔ 

جائداد لفظ ’جاء‘ یعنی جگہ اور ’داد‘ یعنی بخشش و عطا سے مل کر بنا ہے۔ فوٹو فری پک

شطرنج میں جب ’شاہ‘ مارا جائے اُس وقت ’شہ مات‘ کہتے ہیں۔ یہی ’شہ مات‘ انگریزی میں چیک میٹ (checkmate) ہوگیا ہے۔ 
’شطرنج‘ کا کھلاڑی ’شاطر‘ کہلاتا ہے۔ ’شاطر‘ کے مثبت معنی میں عقل مند، دانا، لائق اور زیرک شامل ہیں اور منفی معنی میں چالاک، چال باز، مکّار، عیّار، حیلہ ساز اوردھوکے باز داخل ہیں۔  
اب دھوکے باز کے معنی ذہن میں رکھیں اورانگریزی کے چیٹر(cheater) پرغور کریں تو اسے ’شاطر‘ کے ساتھ کھڑا پائیں گے۔  
اب بساط لپیٹے اور’جائداد‘ کی سیر کرتے ہیں۔ جائداد کو ’جاداد‘ اور ’جائیداد‘ بھی لکھا جاتا ہے جو درست نہیں۔ یوں تو ’جائداد‘ کی تعریف میں گھر بار، مال مویشی، کھیت کھلیان اور مال و اسباب داخل ہیں مگر اس کے لفظی معنی ذرا مختلف ہیں۔   
لفظ ’جائداد‘ دولفظوں ’جاء‘ یعنی جگہ یا مقام اور ’داد‘ یعنی انصاف اور بخشش و عطا سے مل کر بنا ہے۔ یوں اس کے معنی ہوئے وہ جگہ جہاں حکمران یا مقامی امیر لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرتا اور داد و دِہش دیتا ہے۔  
’جائداد‘ کی رعایت سے اردو میں رائج تراکیب میں سے بیشتر قانونی اصطلاحات کے طور پر استعمال ہوتی ہیں مثلاً ملکیت مشترکہ ہو تو جائدادِ شراکتی، زمینی ہو تو جائدادِ اراضی، دائمی ہو تو جائدادِ استمراری، جدی پشتی ہو تو جائدادِ آبائی، موٹرکار اور مشینوں کی صورت میں ہو تو جائداد منقولہ، گھربار اور زمینوں پر مشتمل ہو تو جائدادِ غیر منقولہ کہلاتی ہے۔

شطرنج کا کھلاڑی ’شاطر‘ کہلاتا ہے جس کے مثبت معنی عقل مند کے ہیں۔ فوٹو فری پک

اگر یہ سب کچھ باپ سے ورثے میں ملے توجائداد پدری، اور اگر ورثہ قابل ہوں اور اس میں اضافہ کریں تو ’جائدادِ تدریجی‘ کہلاتی ہے۔  
غالب کی جائداد ’کوچۂ بلی ماراں‘ کا خستہ مکان تھا جس کے متعلق ایک خط میں لکھتے ہیں:  
’دیوان خانے کا حال محل سرا سے بد تر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدانِ رحمت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہوگئی ہے، ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے.‘
میرزا غالب کی فقط چھت چھلنی تھی جب کہ میر تقی میر کا خانہ بربادی کا ٹھکانہ بنا ہوا تھا۔
گھر کی اس شکستہ حالی بلکہ بد حالی کا احوال ’در ہجو خانۂ خود‘ اور ’در ہجو خانۂ خود کہ بہ سبب شدت باراں خراب شدہ بود‘ کے زیر اہتمام دو مختلف مواقع پر کیا ہے۔
نظم پڑھیں تو لگتا ہے گھر کیا ہے بلیوں، چوہوں، گھوسوں، چھچھندروں، چڑیوں، جھینگروں، مکڑیوں، پِسّوؤں اور کھٹملوں کا ڈیرہ ہے۔ پہلی نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا۔ 
کیا لکھوں میر اپنے گھر کا حال  
اس خرابے میں میں ہوا پامال

غالب کی جائداد ’کوچۂ بلی ماراں‘ کا خستہ مکان تھا۔ فوٹو انسٹا گرام

  گھر کی منظر نگاری کے دوران چارپائی میں گھومتے اور لہو چوستے کھٹملوں کو ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں: 
سوتے تنہا نہ بان میں کھٹمل  
آنکھ منہ ناک کان میں کھٹمل  
کہیں پھڑکا کہ جی سے تاب گئی  
آنکھ سے تا پگاہ خواب گئی  
اک ہتھیلی پہ ایک گھائی میں  
سیکڑوں ایک چارپائی میں  
میر کی خانہ ویرانی کا مزید احوال کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے اور ’کھٹمل‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ 
کھٹمل لفظ ’کھاٹ‘ اور ’مَل‘ سے مِل کر بنا ہے۔ ’کھاٹ‘ ہندی اور اردو میں چارپائی کو کہتے ہیں جب کہ ’مَل‘ کے معنی ’پہلوان‘ کے ہیں۔ یوں ’کھٹمل‘ کا مطلب ہوا ’چارپائی کا پہلوان‘، یہ نام حسب حال بھی ہے کہ ’کھٹمل‘ اپنے سے کئی گنا بڑے مقابل کو بے بس و بے کل کر دیتا ہے۔      
’کھاٹ‘ سے متعلق ایک دلچسپ بات ملاحظہ کریں۔ ’کھاٹ‘ چھوٹی ہو تو ’کھٹولا‘ اور ’کھٹیا‘ کہلاتی ہے۔ یہی ’کھاٹ‘ انگریزی میں ’cot‘ ہے جو پالنے، گہوارے اور پنگورے (پنگھوڑے) کو کہتے ہیں۔ اب کھاٹ کھٹولے کی رعایت سے میر تقی میر کی مذکورہ ’ہجو‘ کا شعر ملاحظہ کریں: 
نہ کھٹولا نہ کھاٹ سونے کو 
پائے پٹی لگائے کونے کو 

شیئر: