Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی کا ’عتابی‘ انگریزی میں ’tabby‘ کیسے؟

بلی کے مقابلے میں چوہا بھلے ہی بے وزن ہو مگر اپنے انگریزی ناموں کی رعایت سے دونوں ’ہم وزن‘ ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش
کہیں سامانِ مسرّت، کہیں سازِ غم ہے
کہیں گوہر ہے، کہیں اشک، کہیں شبنم ہے
فلسفہ زندگی کی حقیقت سے آشنا کرتا یہ خاص شعر ایک عام ’بلی‘ کی نسبت سے لکھی گئی نظم کا حصہ ہے۔ نظم اقبال کی اور نظم کا عنوان ہے '۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر'۔
بلیاں مختلف رنگ ونسل کی ہوتی ہیں، جو اپنی خوبیوں اور خصلتوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ برمی، پرشیئن، ایجیبشن، ہَوانا اور ہمالین نسل کی خاص بلیوں کے پہلو بہ پہلو وہ عام بلیاں بھی شامل ہیں جنہیں انگریزی میں’tabby‘ کہتے ہیں۔
انہیں’tabby‘ کیوں کہتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی کے بغداد میں جانا ہوگا، جہاں ایک محلے کا نام وہاں سکونت پذیر شہزادے کے نام پر’عتاب‘ تھا۔ بارہویں صدی عیسوی میں ایک ’دھاری دار‘ کپڑا تیار ہوا جسے شہزادے کے نام پر’عتابی‘ پکارا گیا۔ بعد میں اندلسی عربوں نے’عتابی‘ کو یورپ میں متعارف کروایا جہاں’عتابی‘ نے’tabi‘ کا نام پایا۔ چونکہ یہ ’tabi‘ دھاری دار تھا اس نسبت سے دھاری دار بلی کو بھی ’tabby‘ کہا جانے لگا۔  
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’ب‘ عام طور پر’پ‘ سے بدل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جنوبی ہند کی ایک اہم زبان ’تیلگو‘ میں’بلی‘ کو ’پلی‘ کہتے ہیں۔ اس پلی کا ’پلے‘ سے کوئی تعلق نہیں کہ ’پلا‘ کتے کا ہوتا ہے جب کہ ’بلی‘ کا بچہ ’بِلَوٹا‘ اور’بِلُونگڑا‘ کہلاتا ہے۔  
بلی انسانوں سے جلد مانوس ہوجانے والا جانور ہے اور اس کی نسبت سے اردو میں بہت سے محاورے رائج ہیں۔ ان میں ’بھیگی بلی‘ اور ’بلی کے خواب میں چھچھڑے‘ کے علاوہ ایک دلچسپ محاورہ ’بِلی بھاگوں چِھیکا ٹُوٹا‘ بھی ہے۔ ممکن ہے نسل نو محاورے کے ساتھ ’چِھیکے‘ سے بھی ناواقف ہو، ایسے میں ضروری ہے کہ اس کا تعارف کروا دیا جائے۔  

بلی انسانوں سے جلد مانوس ہوجانے والا جانور ہے اور اس کی نسبت سے اردو میں بہت سے محاورے رائج ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش

’چِھیکا جالی دار ہوتا ہے جو عموماً ڈوری یا لوہے سے بنایا جاتا ہے۔ اس میں تین لمبی رسّیاں اور نیچے دیگچی وغیرہ رکھنے کے لیے رسیوں یا لوہے کی ایک گول جالی بنائی جاتی ہے۔ یہ چھت کی کڑیوں میں یا دیوار میں میخ (کِیل) کی مدد سے لٹکایا جاتا ہے تاکہ چیزیں بچوں اوربلیوں کی پہنچ سے دور رہیں۔
اب اس محاورے کے لفظی معنی سمجھیں۔ ’یوں تو بلی کا چھیکے تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا مگر یہ اُس کی قسمت (بھاگ) تھی کہ چھیکا ٹوٹا اور اُس پر دھارا کھانا بلی کے سامنے آ گرا۔‘  
اصطلاحی معنی میں جب کسی کو بنا طلب کوئی چیز یا دولت مل جائے یا پھر کوئی کام اتفاقیہ ہوجائے توایسے موقع پر ’بلی بھاگوں چھیکا ٹوٹا‘ برتا جاتا ہے۔ یہی صورت حال عرب میں درپیش ہو تو وہ ایسے مال کو ’نعمت غیر مترقبہ‘ کہتے ہیں۔
عربوں سے یاد آیا کہ عربی میں ’بلی‘ کے بہت سے ناموں میں سے ایک ’قِطّ‘ بھی ہے، جس کی مادہ ’قِطّۃ‘ اوربچہ ’قُطَيِطۃ‘ کہلاتا ہے۔ ایک لمحہ غور کریں تو آپ کو عربی ’قِط‘ میں انگریزی ’Cat‘ جھانکتی نظرآئے گی۔  

’Catfish‘ فارسی کے سمندر میں ’گربہ ماہی‘ کے نام سے تیر رہی ہے۔ فوٹو: ان سپلیش

عربی ہی میں بلی کا ایک نام ’ھِرّۃ‘ بھی ہے، جس کا نر’ھِرُّ‘ اور بچہ ’ھرَيرَۃ‘ کہلاتا ہے۔ ایک مشہور صحابی اسی ’ھریرۃ‘ کے تعلق سے ’ابوھریرہ‘ کہلاتے ہیں۔
’بلی‘ کے عربی اور انگریزی تذکرے کے بعد بات ہوجائے فارسی کی، جس میں شیر کی خالہ کو ’گربہ‘ کہتے ہیں۔ اس ’گربہ‘ کی اصل پہلوی زبان (قدیم فارسی) کا لفظ ’گربک‘ ہے۔  
چوںکہ  فارسی عمر میں اردو سے بڑی ہے اس لیے بلی کی رعایت سے فارسی میں محاورے بھی اردو سے زیادہ ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ ہیں۔ دو محاورے آپ بھی ملاحظہ کریں۔  
1۔ ’گربہ گشتن روز اول‘۔ اس کے لفظی معنی’پہلے ہی دن بلی مار دینا‘ ہیں۔ جب کہ اس کا مفہوم ’بغاوت یا سرکشی کو ابتدا ہی میں کُچل دینا‘ ہے۔ ہمارے یہاں کچھ لوگ ’گربہ کشتن‘ کو ’غربہ کشتن‘ پڑھتے اوراسی کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔
2۔ ’گربہ مسکین‘ محاورے میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو بظاہر معصوم مگر حقیقت میں شریر ہو۔ اب اس ’گربہ مسکین‘ کی رعایت سے سعدی شیرازی کا ایک ضرب المثل شعر ملاحظہ کریں:
گربۂ مسکین اگر پَر داشتی
تخم گنجشک از زمین برداشتی  

فارسی میں ایسے دو افراد جو باہم دشمن ہوں ’موش و گربہ‘ (چوہا بلی) کہلاتے ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش

یعنی ’اگر مسکین دکھائی دینے والی بلی کے پَر ہوتے تو دنیا سے چڑیوں کی نسل ختم ہو جاتی‘۔ یعنی اگر ظالموں کا بس چلتا تو وہ کسی کو زندہ نہ رہنے دیتے۔
مچھلی کی ایک قسم اپنی بلی جیسی ’مونچھوں‘ کی نسبت سے ’Catfish‘ کہلاتی ہے، اردو میں اس کے لیے کوئی موزوں لفظ نہیں ہے، جبکہ ’Catfish‘ فارسی کے سمندر میں ’گربہ ماہی‘ کے نام سے تیر رہی ہے۔  
بلی کہیں کی بھی ہو اُس کی چوہے سے نہیں بنتی یہی وجہ ہے کہ فارسی میں ایسے دو افراد جو باہم دشمن ہوں ’موش و گربہ‘ (چوہا بلی) کہلاتے ہیں کہ ہر وقت دست و گریباں رہتے ہیں۔ پھر اسی رعایت سے لڑائی جھگڑے کو’موش و گربہ بازی‘ کہتے ہیں، اس محاورے کا اردو ترجمہ ’چوہے بلی کا کھیل‘ ہے، مگر اردو میں الفاظ اور اطلاق کی وہ شدت نہیں جو فارسی میں ہے۔

’چور‘ کو سنسکرت میں ’موش‘ کہتے ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش

بلی کے مقابلے میں چوہا بھلے ہی بے وزن ہو مگر اپنے انگریزی ناموں کی رعایت سے دونوں ’ہم وزن‘ ہیں۔ یقین نہ آئے تو’حفیظ جالندھری‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
بلی ہے ’سی اے ٹی‘ کیٹ
چوہا ہے ’آر اے ٹی‘ ریٹ
بلی کی باتیں بہت ہوئیں، اب چوہے کی نسبت سے ایک دلچسپ بات ملاحظہ کریں اور وہ یہ کہ ’چور‘ کو سنسکرت میں ’موش‘ کہتے ہیں، چوںکہ ’چور‘ چھپ چھپا کے گھر میں آتا اور سامان چُراتا ہے، لہٰذا اس نسبت سے چوہے کو بھی ’موش‘ اور ’موشک‘ کہتے ہیں کہ وہ بھی چوروں ہی کی طرح آتا ہے۔ سنسکرت کا ’موش‘ فارسی میں بھی ’موش‘ ہی ہے، جبکہ انگریزی میں’ماؤس‘، روسی میں Moisey (موئسی) اور اطالوی mose (موزے) کے تلفظ کے ساتھ گھوم پھررہا ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں