Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 سعودی فنکارہ کے  شاہکار ماڈل کی عالمی سطح پر پذیرائی

بسمہ البلاوی کا تیار کردہ حیرت انگیز شاہکار العلا کی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔(فوٹو ٹوئٹر)
سعودی عرب کے قدیم اور  تاریخی شہر العلا میں ہونے والی41 ویں جی سی سی سربراہ کانفرنس کے لئے نوجوان سعودی فنکارہ کے تیار کردہ  جاذب نظرفن پارے نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔
عرب نیوز کے مطابق  سعودی فنکارہ  بسمہ البلاوی کا  تیار کردہ یہ شاہکار جو العلا کی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے، سوشل میڈیا پر اس وقت سے موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جب سے خلیجی رہنماؤں نے کانفرنس کے دوران قطر کے ساتھ 3 سالہ تنازع ختم کرنے اور  حالات معمول پر لانے کے ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔

بے حد خوشی ہے کہ میرے اس خاص ماڈل  کو اس قدر پذیرائی ملی ہے۔(فوٹو انسٹاگرام)

خلیج کےعلاقے میں ٹویٹر صارفین نے بسمہ البلاوی کے فن پارے کی تصاویر شیئر کی ہیں جو اس اہم سربراہ اجلاس کوم یادگار بنانے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا۔
بسمہ البلاوی نے میڈیا سے گفتگو  کے دوران بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے یہ فن پارہ بنانے کے بارے میں اس وقت سوچا تھا جب یہ اعلان کیا گیا کہ العلا 41 ویں جی سی سی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ میں قدرتی مناظر اوریادگاروں کے عناصر استعمال کرتے ہوئے اپنے شہر کے تاریخی اورآثارِ قدیمہ سے معمور ورثے کا جشن منانا چاہتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جی سی سی  کانفرنس کی میزبانی کے لئے العلا کا انتخاب میری برادری کے لئے باعث فخر ہے۔
 

جی سی سی اجلاس کے لئے تیارکردہ فن پارے نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔(فوٹو عرب نیوز)

البلاوی نے کہا کہ میں نے اس فن پارے میں العلا کے مختلف علاقوں کی ریت کے مختلف رنگ استعمال کرتے ہوئے جی سی سی کا  لوگواس میں اجاگر کیا ہے۔
اس کے ساتھ العلا کی قدیم ثقافت سے مشابہت رکھنے والی علامات اور ڈرائنگزبھی اس میں شامل کی ہیں۔
جی سی سی کا لوگو اس فن پارے کے مرکز میں موجود ہے ۔ اس کے گرد لیہیائی تہذیب کے راک آرٹ اور نقاشی سے ملتے جلتے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔
البلاوی نے جنوبی عرب کے قدیم رسم الخط ’’المسند‘‘کا استعمال کرتے ہوئے کانفرنس کا عنوان بھی اس فن پارے میں شامل کیا ہے۔

فن پارے میں جنوبی عرب کے قدیم رسم الخط ’’المسند‘‘کو شامل کیاگیاہے۔(فوٹو عرب نیوز)

یہ رسم الخط لیہیان کے دارالحکومت ’’دیدان‘‘ کے کھنڈرات سے ملا تھا جو آج کا جدیدالعلا ہے۔
خصوصی طور پر تیار کیا گیا یہ  شاہکار 100مربع سینٹی میٹر پر مشتمل ہے اور اس کی تکمیل میں4 دن صرف ہوئے ہیں۔
ایسے شاہکار بنانے والی  فنکارہ  بسمہ البلاوی جو  ٹورزم گریجویٹ بھی ہیں انہوں نے ریت سے مختلف قسم کے ماڈلز  بنانے کا آغاز 2019 میں کیا تھا۔
جب ان کے کئی فن پارے کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو انہوں نے اس فن کو مستقبل میں ساتھ لے کر چلنےکا فیصلہ کیا اور زیادہ تر توجہ ریت کے ماڈلز اور پینٹنگ پر موکوز کر دی۔

ریت کی مدد سے فن پاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھوں گی۔(فوٹو ٹوئٹر)

ان کے پہلے فن پارے کو العلا میں مدائن صالح  کے ایک باب سے پذیرائی ملی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے العلا اور اس کے آثار قدیمہ کے حامل دلفریب مقامات سے متاثر ہو کر اب تک 6 فن پارے تیار کئے ہیں اور میں اس محنت کے نتائج سے بہت خوش ہوں۔
میں ریت کی مدد سے فن پاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھوں گی۔ میں اپنے شہر کی خوبصورتی اور اس کی قدیم تاریخ  کا احاطہ کرنے کے لئے اپنے فن کو وقف کرنا چاہتی ہوں۔
مجھے بے حد خوشی ہے کہ میرے اس خاص ماڈل  کو اس قدر پذیرائی ملی ہے۔
مدائن صالح سعودی عرب کا سب سے مشہور تاریخی اہمیت کا مقام ہے۔ اسے 2008 میں یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
البلاوی نے کہا کہ میں بچوں کے ساتھ ریت سے کھیلتی تھی اور پانی کے ساتھ مجسمے اور ماڈلز بنایا کرتی تھی۔
اس وقت میں نے سوچا کہ مجھے ان چیزوں کو اپنے فن میں استعمال کرنا چاہئے۔ میں حقیقتاً اس فن سے بہت لطف اندوز ہوتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ العلا کسی بھی فنکار کے لئے حیران کن اور متاثرکن مقام ہے ۔ مجھے توقع ہے کہ العلا کے شہریوں کی حیثیت سے ہمیں اور خاص طور پر فنکاروں کو یہاں کی ثقافت اور تہذیب کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملے گا۔
مدینہ منورہ کے شمال میں واقع العلا، مشرق وسطیٰ میں راک آرٹ اور نقش و نگار ی کے فن کے حوالے سے اہم ترین حیثیت کے حامل مقامات میں شامل ہے۔
 

شیئر: