Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فضا سے لی گئی تصاویر نے العلا کی خوبصورتی کے راز کھول دیے

العلا قصبے کے اب غیر استعمال حصے کی تصاویر اس ’تعمیراتی عجوبے‘ سے متعارف کراتی ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
سعودی عرب کے ایک فوٹو گرافر کے فضا سے تاریخی مقامات کی تصاویر بنانے کے شوق نے نہ صرف انہیں عالمی طور پر مشہور کر دیا بلکہ العلا کی قدیم اور خوبصورت  آبادی کے راز بھی آشکار کر دیے۔
علی الصہیمی کے ’فضا میں آنکھ‘ نے تاریخ وغیرہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس مشہور اسلامی تاریخ کے شہر اور اس کے مکینوں کی زندگی سے متعلق نئے مشاہدے کا موقع دیا ہے۔
العلا کا پرانا قصبہ مملکت کے شمال میں مدائن صالح نامی تاریخی جگہ سے تقریبا 20 کلومیٹر دور واقع ہے۔ سات صدی قدیم یہ مقام مساجد و بازاروں سے بھرا ہوا ہے جو اس کی تاریخی حیثیت اور خوبصورتی کو اجاگر کرتا ہے۔
تاریخی آثار سے بھرپور علاقہ اہم تجارتی مرکز رہا ہے جو شمال اور جنوب کو ملانے کے ساتھ ساتھ شام اور مکہ کے درمیان سفر کرتے زائرین کا اہم ٹھکانہ بھی ہوتا تھا۔
الصہیمی نے عرب نیوز کو بتایا کہ علاقے کی فضائی تصاویر لینے کا خیال خاصے عرصے سے موجود ان کی اس خواہش کا نتیجہ تھا جس کے تحت وہ ملک کی قدیم تہذیب کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق مقامی اور بین الاقوامی طور پر اہم تاریخی مرکز کی حیثیت اختیار کر جانے والے العلا خطے کی تاریخ کو سامنے لانا ہی اس خواہش کا محور تھا۔
الصہیمی نے بتایا کہ ’فضا سے ڈرون کے ذریعے لی گئی تصاویر میں اس مقام کے اونچے پہاڑ اور پتھریلے مقامات ایک حیران کن منظر تخلیق کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی جگہ تھی جنہوں نے ہم سے انسانی بنیادوں اور طرز تعمیر کے حوالے سے تعلق استوار کیا‘۔

العلا کے قدیم مناظر مقامی اور بین الاقوامی طور پر توجہ کا اہم مرکز مانے جاتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

الصہیمی کے مطابق یہاں کے مکینوں نے ایک ایسا قصبہ بسایا جو اپنی انسانی تاریخ کی علامت اور ثقافتی گہرائی کا گواہ بنا۔ العلا کے قلعے کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ یہ مقام کسی دور میں ایک شاندار آبادی کا مرکز تھا۔ ان کے مطابق ان مقامات کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ان کی تصاویر کو ان لوگوں کے سامنے لانا مقصد رہا جو قدیم زمانے سے متعلق اس مقام کے راز جاننے کے خواہشمند ہیں۔
فضا سے العلا کے قدیم قصبے کے قلعوں اور گاؤں کے ساتھ ساتھ موسی بن نصیر کے قلعے اور ایک ہزار میٹر بلند اجا و سلمی پہاڑیوں کی تصاویر بھی لی گئی ہیں۔
ڈرونز کے ذریعے الصہیمی اس علاقے میں واقع گھروں اور عمارتوں کی فضائی لیکن قریب سے تصاویر لینے میں کامیاب رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گھروں کی ساخت اس علاقے کے مکینوں سے متعلق بتاتی ہے کہ کیسے وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے، گویا وہ ایک خاندان ہوں‘۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گھر یوں ہی جڑے ہوئے ہیں لیکن یہ ایک تعمیراتی معمہ ہے جو ہوا کی بآسانی آمدورفیت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی سمجھداری سے ترتیب دیا گیا۔

اس علاقے میں ’الطنطورہ‘ کا میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے (فوٹو: ایس پی اے)

فضائی تصاویر نے یہ سوال بھی پیدا کیا ہے کہ اس مقام پر رہائش پزیر افراد اتنے قریب موجود عمارتوں کی موجودگی میں کیسے ایک سے دوسری جگہ آتے جاتے تھے۔
الصہیمی کے مطابق انہوں نے علاقے میں ڈرونز کے استعمال کے لیے تمام ضروری اجازت نامے حاصل کیے۔ ’ہم تصاویر لے کر انہیں دنیا تک پہنچانے کے شدت سے خواہشمند تھے، کیونکہ عالمی سطح پر یہ ایک غیر معمولی اسلامی شہر شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے گارے سے بنے گھر وقت کے مقابلے کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی تصاویر پر عالمی سطح سے ملنے والے مثبت ردعمل پر انتہائی خوش ہیں۔ العلا کے قدیم قصبے کا اہم پہلو قدیم دھوپ گھڑی ’الطنطورہ‘ بھی ہے جس کا سایہ سرما میں کاشت کے آغاز کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔

شیئر: