Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں

اردو میں ’بَناتُ النَّعش‘ کی اصطلاح قطب شمالی کے گرد موجود سات ستاروں کے جُھرمٹ کے لیے استعمال ہوتی ہے (فوٹو: پکسابے)
تھیں بَنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں 
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں 
میرزا غالب کے اس شعر میں وارد ’بنات النعش‘ کے لفظی معنی ’نعش کی بیٹیاں‘ ہیں۔ اردو میں ’نعش‘ اور ’لاش‘ سے متعلق اکثر ’کنفیوژن‘ رہتی ہے کہ دونوں میں سے کون سا لفظ درست ہے۔ اگر دونوں ہی درست ہیں تو کس لفظ کا استعمال کہاں روا ہے؟ 
عربی میں ’نعش‘ کے معنی وہ تخت یا تختہ ہے جس پر مردے کو رکھتے یا لے جاتے ہیں۔ پھر اس تخت کی نسبت سے خود ’مردے‘ کو بھی ’نعش‘ کہنے لگے۔ یہی ’نعش‘ ترکی زبان میں پہنچا  تو’لاش‘ ہوگیا۔  
عام طور پر ’نعش‘ کے ساتھ  تکریم  وابستہ کر دی جاتی ہے جو ’لاش‘ کے حصے میں نہیں آتی۔ اسی ’لاش‘ سے لفظ ’لاشہ‘ بنا جس کے معنی میں ’مُردہ جسم‘  کے علاوہ تن بدن، لاغر اور نحیف شامل ہیں۔ پھراس ’لاشہ‘ سے لاشَہ اُٹھنا، لاشَہ بے سر اور لاشَہ گَڑنا جیسی تراکیب وجود میں آگئیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ’لاشہ‘ کی رعایت سے ’سردار گینڈا سنگھ مشرقی‘ کا پُر معنی شعر ملاحظہ کریں: 
آ کے لاشے پہ مرے وہ آب دیدہ گر ہوا 
یہ بہانا آنسوؤں کا ہے بہانے کے لیے 

 

’نعش‘ کے بعد اب ’بَناتُ النَّعش‘ کا ذکر ہوجائے۔ عربی اور اُس کی رعایت سے فارسی و اردو میں ’بَناتُ النَّعش‘ کی اصطلاح آسمان پر قطب شمالی کے گرد موجود سات ستاروں کے جُھرمٹ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کسی کو اس جھرمٹ کے چار ستارے مثلِ تابوت نظر آئے اور بقیہ تابوت ڈھونے والیاں دکھائی دیں تو اُس نے انہیں ’بنات النعش‘ کا نام دے دیا۔ 
عربوں ہی میں کچھ لوگوں کو اس جھرمٹ کی ترتیب و تشکیل (formation) ’ریچھ‘ سی نظر آئی تو انہوں نے اسے ’دُبِّ اکبر‘یعنی ’بڑا ریچھ ‘پکارا۔ تخییل کی یہ کارفرمائی صرف عربوں تک محدود نہ رہی بلکہ حیرت انگیز طور پر دنیا کے مختلف خطوں میں یہ جھرمٹ ’بڑے ریچھ‘  ہی سے منسوب ہوا۔ یوں اس نے فارسی میں ’خرس بزرگ‘ نام پایا، لاطینی میں اُرسا میجر (Ursa Major) کہلایا، انگریزی میں گریٹ بیئر (Great Bear) پکارا گیا تو روسی میں بُلشایا مڈویڈٹسا (Большая Медведица) کے نام سے شناخت ہوا۔ 
دوسری طرف اہل ہند کے فلسفی دماغ نے تاروں کے اس جھرمٹ کو’سپت رشی‘ کا نام دیا۔ اس ترکیب میں ’سپت‘ وہی لفظ جو عبرانی میں ’سبت‘ اور فارسی میں ’ہفت‘ ہے اور ان تینوں لفظوں کے معنی ’سات‘ ہیں جبکہ ’رشی‘ کے معنی میں ’سادھو، سَنت، جوگی، درویش، عابد اور عارف ‘وغیرہ داخل ہیں۔ یوں ’سپت رشی‘ کے معنی ہوئے ’سات درویش‘۔ اب ’رشی‘ کی رعایت سے علامہ اقبال کا شعر ملاحظہ کریں: 
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم 
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد 

یونانی اساطیر کے مطابق یہ حسینائیں سمندر کے دیوتا ’اوقیانوس‘ اور دیوی ’تتیس/ Tethys‘ کی بیٹیاں ہیں (فوٹو: پکسابے)

’رشی‘ کے معنی میں ایک لفظ  ’سَنت‘ آیا ہے ۔ یہ ’سَنت‘ انگریزی سینٹ (Saint) کی اصل ہے جسے ’ولی یا درویش‘ کے معنی میں سینٹ نیکولس (المعروف سانتا کلاز)، سینٹ پیٹر اور سینٹ اینتھنی کے ناموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔   
اگر آسمان پر ’بنات النعش‘ جلوہ گر ہیں تو زمین پر’بنات الارض‘ رواں دواں ہیں۔ یوں تو اس کے لفظی معنی ’زمین کی بیٹیاں‘ ہیں مگر اصطلاح میں چھوٹی چھوٹی نہریں ’بنات الارض‘ کہلاتی ہیں۔  
’بنات الارض‘ کی رعایت سے عرض ہے کہ عربی کا ’ارض‘ انگریزی ارتھ (earth) کی اصل ہے۔ ارض اور ارتھ ’زمین‘ کو کہتے ہیں جب کہ خود ’زمین‘ لفظ ’زم‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ’سرد‘ ہیں۔ اسی ’زم‘ سے لفظ ’زمہریر‘ بھی ہے جس کے معنی شدید سردی کے ہیں۔ دیکھیں میرزا غالب کیا کہہ رہیں: 
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر 
تا نہ دے بادِ زمہریر آزار 
بنات النعش اور بنات الارض ہی کی طرح ایک ترکیب ’بنات البحر‘ بھی ہے۔ یونانی اساطیر کے مطابق یہ حسینائیں سمندر کے دیوتا ’اوقیانوس‘ اور دیوی ’تتیس/ Tethys‘ کی بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کسی مخصوص چشمے، دریا، سمندر، جھیل، جوہڑ، چراگاہ، پھول یا بادل کی سرپرست تھی۔ 
’بنات‘ کے اس سلسلے میں’بَنَاتُ الدَّهر‘ بھی شامل ہیں، جس کے لفظی معنی ’زمانے کی بیٹیاں‘ اور اصطلاحی معنی ’ تکلیفیں، مصیبتیں، آفتیں اور بلائیں‘ ہیں۔ علامہ اقبال نے ان ’بنات الدھر‘ کو ’دختران مادر ایام‘ کے نام سے یاد کیا ہے: 
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں 
کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں 

 ’سویٹ ڈش‘ کی بات کریں تو ایک قسم کا حلوا ’ابورزین‘ اور فالودہ ’ابوالعلاء‘ ہے (فوٹو: منجولا کچن)

بیٹیوں کے بعد  اب کچھ ذکر ’بیٹوں‘ کا بھی ہوجائے۔ عربی زبان میں راستے کے لیے بہت سے الفاظ آئے ہیں، جن میں سبیل‘ اور ’طریق‘ بھی شامل ہیں۔ اسی ’سبیل‘ سے ترکیب ’ابن سبیل‘ یعنی مسافر ہے جب کہ ’ابنُ الطَّريق‘ کے معنی ’چور‘ ہیں۔ ایسے ہی ایک لفظ ’ابنُ الحرب‘ ہے جس کے لفظی معنی جنگ کا بیٹا اور اصطلاحی معنی ’بہادر‘ ہیں۔ 
بات یہیں تمام نہیں ہوئی، عربی زبان میں اس کے مخصوص مزاج کے رعایت سے مظاہر فطرت ہی نہیں بلکہ اور بہت سی چیزوں کو ’بنت، بنات، ابن‘ کے ساتھ ساتھ ’اُم‘ یعنی ماں اور ’ابو‘ کی نسبت سے پکارا بھی جاتا ہے۔
مثلاً شراب ’اُم الخبائث‘ ہے تو جہالت ’ام الرذائل‘، لشکر کا عَلم ’اُم الجیش‘ ہے تو ببول کا درخت ’اُم غیلان‘ ہے۔ یہی ’اُم غیلان‘ تخفیف کے بعد ’مغیلاں‘ ہوا اور اس کے ’خار‘ نے فارسی و اردو ادب میں خاص مقام پایا۔ بقول فیض احمد فیض: 
ہے دشت اب بھی دشت مگر خونِ پا سے فیض 
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں 
اب ’ابو‘ کی رعایت سے کچھ بیان ان چیزوں کا ہوجائے جنہیں عربوں نے مختلف کنیتوں سے پکارا ہے۔ مثلاً اگر میزبان’ابوالمثوی‘ ہے تو دسترخوان ’ابوجامع‘ ہے اور اُس پر موجود بکری کا بھنا ہوا بچہ ’ابوحبیب‘، گوشت ’ابو خصیب‘، مچھلی’ابومرینا‘، روٹی ’ابونعیم‘، ترکاری’ابوجمیل‘، سرکہ ’ابوثقیف‘ اورنمک ’ابوعون‘ ہے۔ 
 ’سویٹ ڈش‘ کی بات کریں تو ایک قسم کا حلوا ’ابورزین‘ اور فالودہ ’ابوالعلاء‘ ہے۔ پھران نعمتوں کے عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہونے والی بھوک و افلاس ’ابوعمرۃ‘ ہے۔  

شیئر: