Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم: تحریک سے اپوزیشن تک: ماریہ میمن کا کالم

استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی فی الحال خاموش ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پی ڈی ایم کا آغاز بلند و بانگ مطالبات اور اعلانات کے ساتھ ہوا۔ مطالبہ تھا حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کا اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے اعلانات کیے گئے۔ جلسے، لانگ مارچ اور آخر میں استعفے اور ڈیڈ لائن تھی 31 دسمبر کی۔  
31 دسمبر آ کر گزر گیا۔ سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے اب تک کیا کھویا کیا پایا؟
جلسوں کا اختتام پروگرام کے مطابق ہی ہوا مگر بات پروگرام پورا کرنے تک ہی رہی۔ اپنی تعداد اور جوش و خروش کے لحاظ سے جلسے کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔ بار بار پی ڈی ایم کو وضاحتیں دے کر لوگوں کو قائل کرنا پڑا کہ کراؤڈ مناسب تھا۔
سیاسی مبصرین جانتے ہیں کہ بڑے جلسے اپنا آپ خود بتاتے ہیں نہ کہ وضاحتوں کے محتاج ہوں۔
اب جلسوں کا سلسلہ اختتام پذیر ہے اور اگلے قدم کا انتظار۔ یہ اگلا قدم تھا استعفوں کا اور گمان یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ انتخابی سرگرمیوں سے کنارہ کشی ہو گی۔
ابھی استعفے تو کہیں درمیان میں ہیں مگر ساتھ ساتھ ضمنی الیکشنز میں بھی حصہ لیا جا رہا ہے اور سینیٹ الیکشن میں بھی بھرپور حصہ لیا جائے گا جہاں اوپن بیلٹ کو پی ڈی ایم حکومت کی سازش سمجھ رہی ہے۔
پی پی پی استعفوں میں سب سے زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہے مگر ن لیگ میں بھی کوئی خاص جوش و خروش نظر نہیں آتا۔ بظاہر استعفوں کی بیل ابھی فی الحال کوئی خاص منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
استعفوں کے ساتھ فیصلہ کن آپشن ہے لانگ مارچ کا ہے، لانگ مارچ کے بارے میں دو فیصلہ کن سوال ہیں کہ کب ہو گا اور اس میں کون کون عملی حصہ لے گا؟
وقت کا فیصلہ بھی ابھی گومگو میں ہے۔ سردی اور موسم کا بھی ذکر ہے اور ساتھ سینٹ انتخابات کی تاریخ بھی کرنا پڑ رہی ہے۔

پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی مہلت دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسرا سوال اس سے بھی اہم ہے۔ کہنے کو دس گیارہ جماعتیں ہیں مگر لانگ مارچ کے لیے کارکنوں کے لیے سب مولانا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دو بڑی جماعتوں میں سے پی پی پی صرف ’جمہوری‘ راستے سے ہی حکومت ہٹانے کے اشارے دیتی رہتی ہے اور اگر بہ امر مجبوری لانگ مارچ میں شامل بھی ہوئی تو علامتی حد تک ہی ہو گی۔  
دلچسپ صورتحال مگر ن لیگ کی ہے۔ پنجاب سے اکثریت سیٹیں جیتنے والی جی ٹی روڈ کی جماعت عددی اثر کے لیے مولانا پر انحصار کر رہی ہے۔ وہ لانگ مارچ جس میں صرف ایک مذہبی جماعت کے کارکن ہوں اس کو کس طرح ایک متحدہ تحریک سمجھا جائے گا اور ایسے مارچ کی کامیابی کے کیا امکانات ہوں گے؟
ان سوالات کے جواب خود ن لیگ کے قائدین کے پاس بھی نہیں ہیں۔ دوسری طرف مریم نواز کے آس پاس پائے جانے والے جانثاروں میں کارکن لانے والے اراکین اسمبلی کم اور سوشل میڈیا جنگجو زیادہ ہیں۔ ایک چھوٹی جماعت کے کندھوں پر مارچ سے ن لیگ کی سینیئر قیادت کچھ زیادہ پر امید نہیں ہے۔  
احتجاج کے علاوہ پچھلے کچھ مہینوں میں پی ڈی ایم نے سیاسی ماحول کو گرمایا ضرور ہے، جی بی سے لے کر کوئٹہ تک کے دورے بھی کیے ہیں، اہم ایشوز پر حکومت پر لفظی گولہ باری  بھی کی ہے اور ٹی وہ سکرینز پر مقابلہ بھی جاری ہے۔
اسی ہفتے فارن فنڈنگ کیس جس کو اکبر ایس بابر کئی برسوں سے اکیلے لے کر چل رہے تھے اب اس میں پی ڈی ایم اپنا وزن ڈالے گی اور ایشو بنانے کی کوشش کرے گی۔

لانگ مارچ کے لیے دیگر جماعتیں مولانا فضل الرحمان پر انحصار کر رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے ساتھ ساتھ آگے بھی جیسے جیسے ایشوز آتے جائیں، پی ڈی ایم ان پر سیاست کرتی رہے گی۔  
یہ سارے سیاسی کام کسی نارمل اپوزیشن کے کام ہیں۔ پی ڈی ایم کو یہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تحریک کا نام دینا پڑا۔ اب اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک ملک گیر احتجاجی تحریک یا سیایسی نظام کو جام کرنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے۔
یہ امر بھی سامنے ہے کہ پی ڈی ایم ابھی تک زیادہ سے زیادہ ایک ایکٹو اپوزیشن ہی ہے جو میڈیا اور کبھی کبھی سڑکوں پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے مریم نواز اور مولانا سیاسی طور پر پہلے سے زیادہ relevent بھی ہوئے ہیں، مگر ابتدائی بلند و بانگ اعلانات کا حصول ابھی کوسوں دور ہے۔
کیا پی ڈی ایم جانتے ہوئے ایک تحریک سے اپوزیشن بننا چاہتی ہے یا ایسا مجبوری میں ہوا ہے؟ اس کا ادراک پی ڈی ایم کے لیڈرز اور ان کے ماننے والوں کو ہی کرنا ہو گا۔ 

شیئر: