Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمرجنسی ہیلپ لائن پر ’پرینک کالز‘ کرنے والوں میں کمی کیسے آئی؟ 

حکام کے مطابق پانچ ماہ سے جعلی کالز کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کیا گیا ہے: فوٹو فری پکس
ایمرجنسی ہیلپ لائنز پرجعلی (پرینک) کالز دنیا بھر میں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکام کے مطابق پاکستان میں بھی لوگ ان سروسز پر غیر سنجیدہ کالز بہتات سے کرتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے ون فائیو ایمرجنسی ہیلپ لائن سروسز پر جعلی کالز کرنے والوں کے خلاف ایک دلچسپ آپریشن شروع کیا ہے جس سے ایسی کالز کرنے والوں کی تعداد  میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔  
پنجاب پولیس کا جوابی آپریشن
پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے ڈی آئی جی محمد کامران خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہم نے جعلی کالز کرنے والوں کے خلاف متعدد حربے استعمال کیے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ حربے اپنی افادیت کھو دیتے تھے۔
’مثلاً سب سے پہلے ہم نے ایک ریکارڈڈ میسج ہر کال سے پہلے چلانا شروع کیا جو کال کرنے والے کو آگاہی دیتا کہ یہ ایک ایمرجنسی ہیلپ لائن سروس ہے آپ اگر ایمرجنسی میں ہیں تو کال جاری رکھیں کیونکہ آپ کے یہ وقت استعمال کرنے سے کسی ضرورت مند کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا۔ اس میسج کے بعد کچھ عرصہ تک تو لوگوں نے قدرے احتیاط سے کام لیا لیکن اب صورت حال پھر ویسی ہے۔ پرینک کالز کی بھرمار ہے۔‘  
پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایمرجنسی ہیلپ لائن ون فائیو پر کالز کرنے والوں میں  85 سے 90 فیصد پرینک کالز ہوتی ہیں جبکہ اصل کالز کی تعداد صرف 10 فیصد ہوتی ہے۔  

حکام کے مطابق پاکستان میں بھی لوگ ان سروسز پر غیر سنجیدہ کالز بہتات سے کرتے ہیں: سیف سٹی کنٹرول روم، فائل فوٹو اے ایف پی

ڈی آئی جی محمد کامران کے مطابق ’پچھلے پانچ مہینوں سے ہم نے ایک نئی طرح کا آپریشن شروع کیا ہے۔ ہم ہر مہینے وہ نمبر جن سے مسلسل کالز آتی ہیں ان کو علیحدہ کیا۔ یہ نمبر کسی مہینے200 ہوتے ہیں کسی مہینے اڑھائی سے تین سو۔ لیکن یہ وہ نمبر ہوتے ہیں جن سے مسلسل کالز آتی ہیں۔ ہم نے ان نمبرز کو جوابی کالز کرنا شروع کر دیں۔ اور ان کو وارننگز جاری کیں کہ اگر انہوں نے یہ سلسلہ بند نہ کیا تو ان کے اس اقدام کو قانونی کاروائی میں لایا جا سکتا ہے جو ان کے لیے تکلیف کا سبب بن سکتاہ ے۔ اس عمل سے کافی فرق پڑا ہے۔ جن بھی لوگوں کو ہم نے کالز کیں اگلے مہینوں میں ہم نے ان نمبرز کو مسلسل مانیٹر کیا تو ایسے نمبرز سے دوبارہ کالز نہیں آئیں۔‘ 
ڈی آئی جی کامران خان کے مطابق اب پرینک کالز کی تعداد بیس فیصد کم ہو گئی ہے ’پہلے سے 85 فیصد تھیں تو اب یہ 65 فیصد ہو گئی ہیں۔ اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے جعلی کالز کی تعداد ماہانہ کی بنیاد کم اتنی کم ہوئی ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پرینک کالز کے کم ہونے سے اصل کالز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟
محمد کامران خان کا کہنا تھا ’نہیں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ابھی بھی اصل کالز کی تعداد دس فیصد ہی ہے۔ لیکن آپ کو سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ ہیومن روسورس اور وقت کے ضیاع کا ہے۔ ابھی یہ ماڈل جو ہم نے استعمال کیا ہے اس میں ہم نے علحدہ سے بندوں کو کام پے لگایا ہے ڈیٹا کو مانیٹرکرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ایک ٹھیک ٹھاک لمبا کام ہے۔ لیکن چونکہ اس سے فائدہ سامنے آیا ہے تو اب ہم اس کو جاری رکھیں گے۔‘ 
جعلی کالز پر قانون کیا کہتا ہے؟ 

پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایمرجنسی ہیلپ لائن ون فائیو پر اصل کالز کی تعداد صرف 10 فیصد ہوتی ہے: فوٹو فری پکس 

ڈی آئی جی محمد کامران کہتے ہیں کہ اس حوالے سے دو طرح کی صورت حال ہے ایک تو یہ کہ اگر آپ نے غلط معلومات فراہم کیں تو وہ تو ٹیلگراف ایکٹ کے تحت آپ قانون کی ذد میں آجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایف آئی آر بھی درج ہوتی ہے اور مقدمہ بھی چلتا ہے۔
ایک دوسری صورت بھی ہے ’اور یہی صورت وہ ہے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کہ یہ پرینک کرنے والے کوئی جعلی معلومات نہیں دیتے۔ بلکہ یہ تو کسی بھی قسم کی معلومات نہیں دیتے۔ بلکہ یہ ایک طرح سے کرنے والی کال ہوتی ہے۔ کال کر کے خاموش ہو جائیں گے۔ یا کسی بچے کو فون پکڑا دیں گے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عجیب غریب فرمائشیں شروع کردیں گے۔ جیسا کہ مجھے گانا سنائیں۔ اب یہ ایسی صورت حال ہے جس پر قانون خاموش ہے۔ اس پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اب ہم ان کو دوبارہ خود کال کر کے شرم دلاتے ہیں اور ساتھ وارننگ بھی جاری کرتے ہیں۔ کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم باقاعدہ قانون کی معاونت حاصل کر لیں۔‘ 
ڈی آئی جی محمد کامران کے مطابق یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے ہم نے دیگر ممالک کے ماڈلز بھی دیکھیں پرینک کالز دنیا کے ہر ملک میں ہی مسئلہ ہے۔  
 

شیئر:

متعلقہ خبریں