Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان کافی کی جگہ نہیں، ہمیں تو چائے چاہیے‘

اردو شاعری کا دامن بھی چائے کے ذکر سے بھرا پڑا ہے (فوٹو: ان سپلیش)
سوال کیا جائے کہ کافی کے دو مشہور برانڈز ’سٹار بکس‘ یا ’کوسٹا‘ میں سے کسے پاکستان آنا چاہیے اور جواب ملے کہ ’ستار بخش‘ یا پھر کوئی کہے کہ ’ہمیں تو خان کی چائے اور قہوہ ہی چاہیے‘ تو ہو سکتا ہے اس گفتگو کو دیکھنے یا سننے والا اسے سوال آلو، جواب گوبھی سے تعبیر کرے۔
لیکن پاکستانی ٹائم لائنز پر کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب کاروباری شخصیت جاوید آفریدی نے ٹویپس سے کافی برانڈز کے بارے میں پوچھا۔
ایک ٹویٹ میں پوچھے گئے مختصر سوال کے بعد جاوید آفریدی کا مقصد پورا ہوا یا نہیں البتہ کافی، چائے، قہوے کے انتخاب اور کافی اچھی یا چائے، کی بحث ضرور شروع ہو گئی۔
 

جاوید آفریدی کی ٹویٹ پر تبصرہ کرنے والے صارفین میں سے کچھ نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانیوں کے رجحانات کا ذکر کیا تو کہا ’پاکستان کافی کی جگہ نہیں ہے‘۔
 

اس موقع پر کچھ صارفین نے پاکستان میں کافی پیش کرنے والے دیگر برانڈز کا ذکر کر کے ثابت کرنا چاہا کہ یہاں کافی پسند کرنے والے بھی ہیں، تو دیگر نے ان کی تصحیح کی کہ کافی پیش کرنے والے برانڈز ابھی تک منافع بخش ہونے کی جدوجہد ہی کر رہے ہیں۔
شمائلہ راجہ مرزا نامی صارف نے دیے گئے آپشنز کے بجائے اپنا انتخاب گفتگو کرنے والوں کے سامنے پیش کیا تو لکھا ’ستار بخش‘۔ یہ واضح نہیں تھا کہ ان کا اشارہ اسی نام سے اسلام آباد میں موجود کھانے پینے کی جگہ سے متعلق ہے یا وہ نیا نام تجویز کر رہی ہیں، البتہ متعدد افراد ان کی اس تجویز کے حامی دکھائی دیے۔

عرفان نامی ایک صارف نے کنزیومرز کی تعداد کے حساب سے پاکستان کو بطور مارکیٹ دیکھا تو پوچھا کہ کیوں نہ کچھ اپنا بنایا جائے؟
 

سجاد حسین نامی ایک صارف نے اپنا تجربہ شیئر کیا تو لکھا کہ ’انہیں کوسٹا ذرا نہیں بھائی، البتہ سٹار بکس استعمال نہیں کی اس لیے اس پر کوئی پر رائے نہیں دے سکتے‘۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے متبادل تجویز پیش کی تو لکھا ’بھائی ہمیں خان کی چائے اور قہوہ ہی چلے گا‘۔

کافی کی بحث نے قہوے کا ذکر چھیڑا اور رخ چائے کی جانب موڑا، تو یہ طے تھا کہ اس معاملے میں سوشل میڈیا ٹائم لائنز اکیلی نہیں ہیں۔ اردو شاعری کا دامن بھی چائے اور اس کے ساتھ بیتی وارداتوں سے بھرا پڑا ہے۔
کبھی ترونا مشرا نے اپنی غزل میں ’آج پھر چائے بناتے ہوئے یاد وہ آیا - آج پھر چائے میں پتی نہیں ڈالی میں نے‘ کہہ کر بھول جانے کی وجہ بیان کی تو ناصر شہزاد نے ’دھیان اک بیتے ملن کے دوار ۔ لب چائے کی پیالی پر‘ کا استعارہ بھی استعمال کر رکھا ہے۔

پاکستان میں کافی کے مقابلے میں چائے کا استعمال کہیں زیادہ ہے (فوٹو: ان سپلیش)

برانڈ کیا ہو یا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ کے پہلوؤں کا ذکر کر کے گفتگو آگے بڑھی تو کچھ صارفین نے مشورہ دیا کہ بجائے باہر سے کسی برانڈ کو لانے کے ایسے فوڈ پراسیسنگ سینٹرز بنائیں جائیں جہاں مقامی کسان اپنی مصنوعات تیار اور انہیں برآمد کر سکیں۔
 

بات بیرونی اور مقامی برانڈز تک پہنچی تو ساتھ ہی ساتھ متبادل غیرملکی فوڈ برانڈز بھی زیربحث آئے۔ صفیہ شاہ نے اپنی تجویز میں لکھا کہ ’سعودی چینز کو یہاں لایا جائے، ان کا کھانا قابل اعتماد اور مکمل حلال ہوتا ہے‘۔

غیرملکی کافی برانڈز کی زائد قیمتوں کی وجہ سے مقامی سطح پر ان کی پزیرائی نہ ہو سکنے کے خدشے نے لفظوں کا روپ دھارا تو ذکر ہوا کہ کون صحیح الدماغ انسان ایک کافی کے لیے 800 روپے ادا کرے گا؟

زائد قیمتوں کے معاملے پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے اپنے اعتراض کے ساتھ یہ تجوید بھی دی کہ ان کی قیمتیں کم کرائی جائیں تو عام آدمی بھی لطف اندوز ہو سکے۔

کافی کون سی ہو یا پاکستانی چائے پسند کرتے ہیں؟ کے سوالات حالیہ گفتگو میں بھی سامنے آئے اور مختلف افراد نے اپنا اپنا موقف بھی پیش کیا۔ تاہم پاکستان میں چائے اور کافی کے حوالے سے اعدادوشمار بھی اپنے اندر خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے ایک جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے دو برس قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں چائے کا سالانہ استعمال ایک لاکھ 72 ہزار ٹن سے زائد ہے جو 2027 تک بڑھ کر دو لاکھ 50 ہزار ٹن سے تجاوز کر جائے گا۔

روایتی پاکستان معاشرت میں چائے مہمان نوازی کے آسان اور بہتر ذریعے کا درجہ رکھتی ہے (فوٹو: ان سپلیش)

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں چائے کی درآمد گزشتہ برس کے اسی عرصہ کے مقابلے میں تقریبا 39 فیصد بڑھی تھی۔ مالی سال 2020 اکیس کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں پاکستان میں 141 اعشاریہ 965 ملین ڈالر کی چائے درآمد کی گئی تھی۔
پاکستان میں کافی کے استعمال کے حوالے سے 2018 میں ورلڈ ڈیٹا اٹلس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال بھر میں تین لاکھ 35 ہزار ڈالرز کی کافی درآمد کی گئی ہے۔

شیئر: