Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اندرون و بیرون ملک رقم منتقل کرنے کے آسان طریقے

پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے مطابق سال 2019 میں دو لاکھ تین ہزار 625 پاکستانیوں نے مختلف ممالک کا رخ کیا۔
پاکستان کے دیہی علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد حصول رزق کے لیے اندرون ملک بھی مختلف شہروں کا رخ کرتی ہے۔
 یہ تمام لوگ اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ اپنے خاندانوں کے لیے آبائی علاقوں کو بھجواتے ہیں اور رقوم کی اس منتقلی کے لیے آسان ترین طریقے تلاش کرتے ہیں۔
اب ڈیجیٹل فنانشل انکلوژن کا دور ہے، اب نہ صرف اندرون ملک بلکہ باہر سے بھی پیسے باآسانی بھیجے جا سکتے ہیں جس کے لیے آپ کو صرف ایک موبائل فون نمبر یا پاسپورٹ درکار ہے۔
پیسے اندرون ملک بھیجنے ہوں یا بیرون ملک سے، اس کے لیے کئی ذرائع ہیں لیکن ہر طریقے کی اپنی خصوصیات ہیں۔
ٹیلی کام کمپنیز کا شمار بھی اب منی بینکس میں ہوتا ہے جو ملک بھر میں کوئی بھی رقم لمحوں میں کہیں سے کہیں منتقل کر دیتی ہیں۔
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سربراہ اور وفاقی حکومت کی معاشی ایڈوائزری کونسل کے رکن عابد سلہری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس بات کے امکانات ہیں کہ یہ ٹیلی کام کمپنیاں جلد ہی بیرون ملک سے رقم کی منتقلی کا بھی آغاز کر دیں گی۔‘
ماہرین کے مطابق رقوم کی منتقلی کے لیے چند نمایاں طریقے یہ ہیں۔

ٹیلی کام کمپنیز کا شمار بھی اب منی بینکس میں ہوتا ہے (فوٹو: پکسا بے)

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ

وفاقی حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کی آسانی کے لیے ملک میں کام کرنے والے تمام بینکوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس‘ کے ذریعے دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو گھر بیٹھے پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت فراہم کریں۔
یہ طریقہ آج کل بہت مقبول ہے اور سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر ذوالفقار عباس بخاری نے اردو نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اب تک ہزاروں لوگ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے کروڑوں روپے پاکستان منتقل کر چکے ہیں۔

عام بینکنگ چینلز کے ذریعے منتقلی

ماہرین کے مطابق ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس‘ کے باوجود سٹیٹ بینک نے ایک حکمت عملی مرتب کی ہے جس کے تحت بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کم سے کم  وقت میں رقم کی منتقلی یقینی بنائیں۔
عابد سلہری کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے بیرون ممالک میں موجود بینکوں سے رابطے کر کے رقوم کی منتقلی فیس ختم کرنے کے بھی انتظامات کیے ہیں اور اب وہ منتقلی فیس سٹیٹ بینک ادا کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بینکوں کے ذریعے پیسے بھیجیں۔‘
ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق یہ اقدامات اس لیے بھی کیے گئے ہیں تا کہ ہنڈی اور حوالہ جیسے بوسیدہ نظام جو کہ دہائیوں سے رائج تھے، ان سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
عابد سلہری کہتے ہیں ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس کے بعد اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ کون سے ایسے سقم ہیں کہ جن کی بنا پر رقوم کی منتقلی سے دہشت گرد بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس معاملے میں ہنڈی اور حوالہ سر فہرست آئے، تو پھر حکومت نے یہ اقدامات اور بھی شدت سے اٹھائے۔‘

حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ متعارف کروایا (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

ویسٹرن یونین

رقم منتقلی کے بین الااقوامی ادارے ’ویسٹرن یونین‘ کی پاکستان کے تمام شہروں میں درجنوں برانچیں ہیں۔ اس کے ذریعے بھی رقم فوری اور محفوظ طریقے سے منتقل کی جاسکتی ہے جبکہ اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانی اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

رجسٹرڈ ایکسچینج کمپنیز

بیرون ممالک سے ان ایکسچینج کمپنیز کے ذریعے بھی رقم بھجوائی جاسکتی ہے جو سٹیٹ بینک کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ یہ کمپنیاں بھی پیسے بھیجنے کے لیے قابل اعتبار ہیں۔ صارفین پیسے بھیجنے سے قبل متعلقہ کمپنی کی سٹیٹ بنک سے رجسٹریشن کے متعلق معلوم کر کے اطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔

راست اکاؤنٹ

پاکستانی حکومت نے حال ہی میں’راست اکاؤنٹ‘ کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعے باآسانی کہیں بھی پیسے منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی طرح یہ سروس بھی بہت مفید ہو گی اور کامیابی حاصل کرے گی۔

ماہرین کے مطابق سٹیٹ بینک نے بینکوں کو پابند کیا ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں رقم کی منتقلی یقینی بنائیں (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

منی آرڈرز

اگرچہ خط و کتابت کے لیے ڈاک خانوں کا استعمال اب بہت حد تک متروک ہو چکا ہے تاہم پیسے بھیجنے کے لیے منی آرڈر کی سہولت اب بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
پاکستان پوسٹ نے کچھ عرصہ قبل الیکٹرانک منی آرڈر سروس کا بھی آغاز کیا جس کے ذریعے ملکی پیسے کی منتقلی بہت ہی معمولی چارجزکے ساتھ کی جارہی ہے۔ یہ سروس پاکستان بھر کے تمام 83 جی پی اوز میں دستیاب ہے۔

موبائل فون نیٹ ورکس کے ذریعے منتقلی

 پاکستان کے اندر مختلف شہروں میں رقوم کی ترسیل کے لیے موبائل فون کمپنیوں کے نیٹ ورکس اس وقت بہت مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے ذریعے لمحوں میں رقوم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہیں۔
اس کے لیے محض موبائل فون نمبرز اور شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان نیٹ ورکس نے پاکستان کے کونے کونے میں گلی محلوں میں اپنے پوائنٹس بنائے ہوئے ہیں جہاں سے آپ اپنے پیسے بھیج یا وصول کر سکتے ہیں۔

منی ٹرانسفر ایپس

بیشتر بنکوں اور موبائل فون نیٹ ورکس نے اب رقم منتقلی کے لیے ’ایپس‘ بھی لانچ کر دی ہیں، جن کے ذریعے آپ اپنے دفتر یا گھر بیٹھے فوری طور پر کہیں بھی پیسے بھیج سکتے ہیں۔

ڈیجیٹل کرنسی

اگرچہ ڈیجیٹل کرنسی یعنی کہ ’بٹ کوائن‘ وغیرہ ابھی تک پاکستان میں غیر قانونی ہے لیکن دنیا بھر میں اس کا استعمال اب بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔
اس بارے میں پاکستان میں آئی ٹی تعلیم کے بڑے ادارے کامسیٹس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ارشد قدوس قاضی نے اردو نیوز کو بتایا کہ رقوم کی منتقلی کے لیے ’ڈیجیٹل کرنسی‘ ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر میں ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال ہو رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ’اس جدید دور میں پاکستان کو بھی ڈیجیٹل کرنسی کی طرف آنا ہوگا۔ ڈیجیٹل کرنسی کی منتقلی یا اس کی مقدارکا پتہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔‘

رقوم منتقلی کا پاکستان کی معیشت میں کردار

سینیئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران رقوم کی منتقلی کے عمل نے معیشت کو بڑی حد تک سہارا دیا ہے۔
’کورونا وائرس کے بعد کی معیشت کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ زر مبادلہ میں چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمارکے مطابق زر مبادلہ 31.23 ارب روپے تک بڑھا۔‘

شیئر: