Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم اور ایک معزز جج ایک مقدمے میں فریق ہیں: چیف جسٹس

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ترقیاتی فنڈز دینے کے اعلان پر جسٹس قاضی فائز نے نوٹس لیا تھا۔ فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
پاکستان کی سپریم کورٹ میں ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجرا کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت کی جانب سے وزیراعظم سے ذاتی حیثیت میں جواب مانگنے پر اعتراض اٹھا دیے۔ 
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ان سے صرف اسی وقت جواب مانگا جا سکتا ہے جب معاملہ ان سے متعلق ہو۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور جسٹس فائز عیسیٰ ایک کیس میں ایک دوسرے کے خلاف فریق ہیں۔

 

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ میں سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے وزیراعظم عمران خان کی دستخط شدہ سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ 
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز آئین کے مطابق دیے جاتے ہیں۔ وزارت خزانہ فنڈز جاری کرنے اور بجٹ کے معاملات دیکھتی ہے۔ 
جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوران سماعت انکشاف کیا کہ ’مجھے واٹس ایپ میسج موصول ہوا ہے۔ میسج میں کچھ دستاویزت ہیں جن میں حلقہ این اے 65 کے رکن کو فنڈز دیے گئے۔ یہ فنڈز پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے جاری کیے گئے۔ مجھے نہیں معلوم یہ تفصیلات درست ہیں یا غلط۔ دستاویزات کے مطابق حکومتی اتحادی کو سڑکوں کی تعمیر کی مد میں فنڈز دیے گئے۔‘
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب کیا وزیراعظم ذاتی حیثیت میں جواب دہ تھے؟ وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ وزیراعظم اس وقت جواب دہ ہے جب معاملہ ان سے متعلقہ ہو۔ حکومت جواب دہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جا سکتا۔ اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں۔ 
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض اٹھایا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکرٹری سے مانگا گیا تھا۔ حکومت سیکریٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ 
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے۔ 
اٹارنی جنرل نے دہرایا کہ کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیے جا سکتے۔ واٹس ایپ والی دستاویزات آپ کی شکایت ہے، جائزہ لیں گے۔ 
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں، صرف نشاندہی کر رہا ہوں۔ آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی۔ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ مدت میں توسیع کے لیے اسمبلی سے رجوع کریں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'آپ کافی دیر سے آبزرویشن دے رہے ہیں، میری بات تو نہیں سنی گئی.'
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 'میرے خلاف ٹویٹس کی بھرمار ہو رہی ہے۔ کیا کرپٹ پریکٹسز کے خلاف اقدامات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں۔ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں۔ ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں۔ 
چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہاں وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے۔  ہم معاملہ نمٹا رہے ہیں۔ وزیراعظم اور ایک معزز جج ایک مقدمے میں مخالف فریق ہیں۔‘
 چیف جسٹس کے معاملہ نمٹانے کے ریمارکس پر بینچ کے ججز اٹھ کر چلے گئے۔

شیئر: